عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے امریکی صدر کے ’قیاس آرائی پر مبنی‘ دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا کہ وائرس چین کی لیب میں تیار ہوا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر برائے ہنگامی صورتحال مائیکل ریان نے ایک ورچووَل بریفنگ کے دوران کہا کہ ’وائرس کی ابتدا کے حوالے سے ہمیں امریکا کی جانب سے کوئی ڈیٹا یا مخصوص شواہد موصول نہیں ہوئے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ قیاس آرائی ہی رہے گی۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چین میں گزشتہ برس سامنے آنے والے والا یہ مہلک وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور ممکنہ طور پر ووہان میں نایاب جانوروں کے گوشت کی مارکیٹ سے پھیلا۔
دوسری جانب امریکا کے ماہر وبائی امراض انتھونی فاسی نے نیشنل جیوگرافک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ چمگادڑوں میں وائرس کے ارتقا کو دیکھیں اور جو وہ اب ہیں (سائنسی شواہد) بہت مضبوطی سے اس بات کے حق میں کہ یہ مصنوعی یا جان بوجھ کر چھڑا گیا نہیں ہوسکتا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وقت کے ساتھ ہونے والا ارتقا بہت زیادہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ (وائرس) فطرت میں تیار ہوا اور اس کے بعد جانوروں میں آیا‘۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین پر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے انتظامات کے حوالے سے بہت تنقید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ووہاں کی لیبارٹری سے شروع ہوا۔
دوسری جانب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے بھی کہا تھا کہ ’بہت سے ثبوت‘ اس دعوے کی حمایت کرتے ہیں اور امریکی انٹیلی جنس اداروں نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیق جاری رکھیں گے کہ وائرس کا پھیلاؤ متاثرہ جانوروں سے ہوا یا لیبارٹری میں ہوئے حادثے سے ہوا۔
مائیکل ریان نے کہا کہ ’کسی بھی ثبوت پر بات کرنے والے ادارے کی طرح ہم بھی وائرس کی ابتدا کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مستقبل میں وبا پر قابو پانے کے لیے صحت عامہ کا نہایت اہم جز ہے۔
ڈبلیو ایچ او عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ڈیٹا اور شواہد موجود ہیں تو یہ فیصلہ امریکی حکومت کو کرنا ہے کہ انہیں فراہم کرنا ہے یا نہیں اور کب فراہم کرنا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کے لیے اس حوالے سے معلومات کی عدم موجودگی میں کچھ کرنا مشکل ہے۔