نورمقدم قتل کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ میں ملزم کے والدین کے وکیل کے پولیس تفتیش کی خامیوں پر دلائل

نورمقدم قتل کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ میں ملزم کے والدین کے وکیل کے پولیس تفتیش کی خامیوں پر دلائل


نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل نے ضمانت کی اپیل کے دوران پولیس کی تفتیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں خامیاں موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی۔

ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے اور چالان رپورٹ بھی پڑھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پولیس ظاہر جعفر کے بیان پر انحصار کر رہی ہے، ریمانڈ میں لینے کے بعد میرے موکل سے کوئی بیان نہیں لیا گیا، اب پتہ نہیں پولیس نے اپنی رپورٹ میں کیا لکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چالان کے مطابق 19 جولائی اور 20 جولائی کو ملزم کا والد سے رابطہ ہوا، اگر پولیس کو پہلے بتا دیا جاتا تو نور کی جان بچ سکتی تھی۔

اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ تھراپی ورکس والے ملزمان نامزد ہیں یا گواہ ہیں، جس وکیل نے بتایا کہ تھراپی ورکس والے بھی کیس میں ملزمان نامزد ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مان لیتے ہیں کہ ملزم نے کالز کی ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بات کیا ہوئی، یہ معلوم ہی نہیں کہ ظاہر جعفر نے والدین کو قتل کا بتایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ معلوم بھی ہو اور تھراپی ورکس والے ثبوت مٹانے گئے ہوں پھر بھی یہ کیس نہیں بنتا اور ملزم کے والدین پر اس الزام میں بھی قابل ضمانت دفعات لگتی ہیں، پولیس نے ان کا صرف دو روزہ جسمانی ریمانڈ لیا، اگر ان کے خلاف اتنا مواد موجود ہوتا تو زیادہ ریمانڈ لیا جاتا۔

وکیل نے کہا کہ پولیس نے چالان میں لکھا ہے کہ ظاہر جعفر نے قتل کے بعد والدین کو آگاہ کیا اور انہوں نے تھراپی ورکس والوں کو بھیجا، قتل کے بعد اعانت نہیں ہو سکتی۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ تھراپی ورکس کے امجد پر زخمی ہونے کی وجہ چھپانے پر اعانت کا الزام لگایا گیا، مالی اور چوکیدار کو نور مقدم کو گھر سے باہر جانے سے روکا، ہہ الگ بات ہے کہ مالی اس وقت موقع پر موجود نہیں تھا لیکن میں اس پر ابھی بات نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش میں خامیاں موجود ہیں۔

خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے حوالے دیے اور کہا کہ شواہد کیا ہیں، وہ وکیل مدعی بتائیں گے۔

اس موقع پر عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت چاہیے، جس پر انہوں نے کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ کل دلائل مکمل کرلوں۔

عدالت نے نور مقدم کیس کے مرکزہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کل دس بجے تک ملتوی کردی۔

نور مقدم قتل کیس

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم گھر سے غائب تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا اور اس کی تلاش شروع کی گئی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں