مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کی کوریج پر پابندی غیر قانونی قرار


پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان الیکڑونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی چینلز کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس نشر کرنے سے روکنے کے اقدام کو غیرقانونی، آئین اور پیمرا کے آرڈیننس 2002 کے منافی قرار دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھی اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے ریمارکس دیے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کو نشر کرنے پر پابندی آئین کی شق 19 اور پیمرا آرڈیننس کی شق 27 کے خلاف ہے۔

جے یو آئی کے رہنما عبید اللہ انور کی جانب سے پیش کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’پیمرا نے مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس کو نشر نہ کرنے کے لیے چینلز کو زبانی ہدایت جاری کی تھیں‘۔

جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں بینچ نے پیمرا کو ہدایت کی کہ اس امر کو یقینی بنائے کہ نجی چینلز اپوزیشن کی سرگرمیوں کو بھی نشرکرے جس طرح وہ حکومت کی کرتے ہیں۔

بینچ نے کہا کہ ’آئین کا شق 19 ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے‘۔

بینچ نے 29 اکتوبر کو دو پٹیشن قبول کی تھیں۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق بینچ نے صوبائی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں کنٹینرز لگا کر روڈ بند کرنے کو غیرقانونی قرار دیا۔

عدالت نے ہدایت دی کہ اسلام آباد سے خیبرپختونخوا تک تمام روڈ کھول دیے جائیں۔

علاوہ ازیں بینچ نے درخواست گزار کو ہدایت دی کہ ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کو بونڈ کے ذریعے یقین دلایا جائے کہ آزادی مارچ کے شرکا پر امن رہیں گے اور عوامی اور حکومت املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 16،15 اور 17 کا حوالہ دیا گیا جن میں آزادی سے نقل و حرکت کرنے، لوگوں کے پرامن اجتماع اور اتحاد کی تشکیل کی ضمانت دی گئی۔

اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے تنطیم ’انصار الاسلام‘ پر پابندی کے معاملے پر جے یو آئی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے درخواست موقف اختیار کیا تھا کہ ’حکومت جے یو آئی کے مطالبات سے خوفزدہ ہو کر جماعت کے خلاف مہم چلارہی ہے اور مختلف طریقوں سے آواز دبانے اور آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی اسے روکنے کی کوشش کررہی ہے‘۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت محکمہ قومی انسداد دشت گردی کے ذریعے حملوں کے خطرات سے متعلق الرٹ جاری کرکے عوام میں افراتفری پھیلا کر آزادی مارچ میں شرکت سے روکنے کی کوششیں بھی کررہی ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی فورس ‘انصار الاسلام’ کے دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن محافظ دستے سے سلامی لیتے نظر آئے تھے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں