موریطانیہ میں داماد اور سُسرکے درمیان میل جول پرپابندی کی عجیب فرسودہ روایت


افریقی ملک موریطانیہ کےمختلف طبقات میں لوگ ایک عجیب وغریب سماجی روایت میں آج تک جکڑے ہوئے ہیں۔ اس روایت کے تحت داماد اور اس کے سسرکی میل ملاقات،ایک مجلس میں بیٹھنے، ایک ساتھ کھانا کھانے حتیٰ کہ سلام کرنے کو بھی ‘ممنوع’ سمجھاجاتا ہے۔ اگر داماد گھر پر آجائے تو اس کی بیوی کا والد منہ چھپا کر وہاں سے کھسک جاتا ہے۔

میڈیا کے مطابق موریطانیہ میں یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور اگرکوئی اس کے خلاف ورزی کرتا ہے معاشرے میں اسے’بے حیا’ تصورکیا جاتا ہے۔

اگرچہ اس قدیم سماجی روایت کے خلاف اب اکا دکا آوازیں‌اٹھ رہی ہیں۔ بعض لوگ داماد اور اس کے سسر کے درمیان ہونے والی ملاقات پر پابندی کو ازمنہ رفتہ کی بربریت پرمبنی روایت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ روایت موریطانیہ میں عربوں‌کی آمد سے بھی پہلے کی ہےجسے قبائل نے اختیارکیا اور آج لوگ اس میں جکڑے ہوئےہیں۔ مخالفت کے باوجود موریطانیہ میں ایک بڑا طبقہ اس روایت کو احترام اور قدر کی نگاہ سےدیکھتا ہے۔ روایت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ داماد اور اس کےسسر کےدرمیان ملاقات سے اجتناب دراصل سسر کےاحترام کا تقاضا ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ اگر کسی محفل میں داماد موجود ہوتو سسر وہاں‌ بیٹھے، یا دونوں ایک دوسرے کو سلام کریں، یا کوئی بات چیت کریں۔ دونوں میں‌سے کسی ایک کو اس مجلس سے نکل جانا ہوتا ہے۔

داماد کے لیے بیوی کے والد سے ملاقات کو سسر کی بے عزتی اور بے قدری تصور کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے کو ‘شرمناک’ حرکت قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ لڑکی کےبڑے بھائی کے ساتھ بات چیت اور رابطہ ممکن ہے۔ اگر داماد اور اس کےسسرکو ایک جگہ کھانا کھاتےدیکھا جائے تو اسے انتہائی شرمناک حرکت سمجھا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق دونوں‌کی عزت اسی میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کریں۔

اس کے برعکس داماد اپنی خوش دامن کے ساتھ ہرطرح کی بات چیت کرسکتا ہے۔ ممانعت صرف داماد اور سسر کےدرمیان رابطے پرہے۔ ساس اور داماد کے درمیان ایسا کوئی پابندی نہیں۔ وہ ایک ہی مجلس میں‌کھانا سکتے ہیں۔ ساس کو داماد کےلیے دوسری ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم وہ اپنے سسرکےساتھ رابطہ نہیں کرسکتا۔ اگر داماد کو سسر تک کوئی پیغام پہنچانا ہے تو وہ ساس کے ذریعے ہی پہنچائے گا۔ شادی کے بعد عیدوں اور خوشی کےدیگر مواقع پر ساس اور داماد کے درمیان تحائف کاتبادلہ دونوں‌ میں رشتہ داری تعلق کو مضبوط بنانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے.

موریطانیہ میں داماد اور سسر کےدرمیان میل پر پابندی کو’السحوۃ’ کا نام دیا جاتا ہے۔ عربی میں یہ لفظ’شرم وحیاء’ کے ہم معنی ہے۔ موریطانیہ میں اسلام کی آمد کےبعد بھی اس روایت کو ختم نہیں‌ کیا جاسکا حالانکہ علماء نے اسےختم کرنے کے فتوےبھی صادر کیے اور کئی مواقع پر خود علماء اپنی بیٹیوں کی رسم نکاح میں داماد کےساتھ موجود ہوتے تاکہ لوگوں کو اپنے عمل سے اس روایت کو توڑنے کی ترغیب دے سکیں۔علماء نے لوگوں‌کو بتایاکہ اسلام شرم وحیاء کی تعلیم دیتا ہے مگر سسر اور داماد کےدرمیان رابطے کوحرام نہیں سمجھتا۔ اسلام میں اس طرح کی فضول روایت کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلام سسر کی والد کی طرح احترام کی تلقین کرتا ہے نہ کہ اسے دیکھ کر منہ پھیرلینے کی فرسودہ روایت کو قبول کرتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں