ملک میں دہشت گردی سیکیورٹی فورسز کی ’غفلت‘ کی وجہ سے بڑھی ہے، عمران خان

ملک میں دہشت گردی سیکیورٹی فورسز کی ’غفلت‘ کی وجہ سے بڑھی ہے، عمران خان


سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی ایجنسیوں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔

گزشتہ روز (11 فروری) کو امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا انگلش‘ کو دیے گئے انٹرویو میں سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کرنے کے فیصلے کے گرد ہونے والی حالیہ تنقید پر بات کی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے میزبان کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کا جواب دیا کہ کیا وہ اب بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہیں۔

میزبان سارہ زمان نے عمران خان سے پوچھا کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا تھا وہ اس گروپ نے خود کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے استعمال کیا اور وہ مذاکرات اس وقت شروع ہوئے جب آپ (عمران خان) اقتدار میں تھے، تو کیا آپ اب بھی ان مذاکرات پر قائم ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے جب طالبان(افغان) نے اقتدار سنبھال لیا اور انہوں نے ٹی ٹی پی کا فیصلہ کیا تو پاکستانی حکومت کو کن چیزوں کے انتخاب کا سامنا کرنا پڑا، ہم 30 سے 40 ہزار لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس میں کے ان خاندان بھی شامل تھے، جب افغان طالبان نے فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کو پاکستان واپس بھیجنا ہے، تو کیا ہمیں انہیں لائن میں کھڑا کر کے گولی مارنی چاہیے تھی یا ہمیں ان کے ساتھ مل کر انہیں دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

عمران خان نے کہا کہ اس وقت ان کی حکومت کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس کے پیچھے یہ خیال تھا کہ سرحد کے تمام سیاستدانوں، قبائلی علاقوں، سیکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کی رضامندی سے ان کو دوبارہ آباد کیا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ ’لیکن یہ خیال مکمل نہ ہو سکا کیونکہ ہماری چلی گئی تھی اور جب ہماری حکومت ہٹائی گئی تو نئی حکومت نے اس معاملے سے نظریں پھیر لیں۔‘

سابق وزیراعظم نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ دوبارہ منظم ہو، تاہم انہوں نے سوال کیا کہ ’لیکن اس وقت پاکستانی سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں، خفیہ ادارے کہاں تھے، کیا ان کو ٹی ٹی پی کی بحالی نظر نہیں آرہی تھی سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’ان (سیکیورٹی فورسز) کی لاپرواہی کا ذمہ دار ہمیں کیس ٹھہرایا جاتا ہے۔؟ .

کابل کے ساتھ تعلقات پر زور

پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک کو کسی نہ کسی طرح کابل کے ساتھ دوبارہ کام کرنے اور دہشت گردی کے مسئلے سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ’میں نہیں کہتا کہ یہ سب آسانی سے ہوسکتا ہے لیکن کیا ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں پھر وہی حالات ہوں جو 2005 سے 2015 تک ہوئے جہاں افغان سرحد پر پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ہم دہشت گردی پر ایک اور جنگ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حکومت چاہے کچھ بھی کر رہی ہو لیکن پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے کابل کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ انہوں نے سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ اچھی کوشش کی۔

عمران خان نے کہا کہ ’ہمارا مفاد اس میں ہے کہ کابل کی حکومت کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہوں جیسا کہ ہماری 25 سو کلومیٹر پر محیط سرحد ان سے ملتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگر وہاں دہشت گردی کے مسائل ہیں تو وہ ہماری مدد کریں گے۔‘

عمران خان نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وزیر خارجہ نے افغانستان کا ایک دورہ بھی نہیں کیا۔

باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلق تھا

سابق آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت اور فوج ’ایک ہی صفحے‘ پر تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ ’ہماری مدد کے لیے پاک فوج کی منظم طاقت موجود ہو۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے ساتھ کام کیا، اور آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کے لیے کہا جارہا تھا کہ یہ کورونا وائرس سے کامیابی سے نمٹ رہا تھا۔‘

تاہم عمران خان نے کہا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کے کچھ بڑے ڈاکوؤں کی حمایت کی اور کرپشن کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ قمر جاوید باجودہ چاہتے تھے کہ ہم ان کے ساتھ کام کریں جس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں کرپشن کیسز سے چھوٹ دے دیں، مزید کہا کہ قمر جاوید باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے۔

عمران خان نے کہا کہ ’اور کسی وجہ سے اس (باجودہ) نے سازش کی اور یہ رجیم چینج ہوا۔‘

عمران خان نے مزید کہا کہ طاقت کے توازن کا اہم اصول یہ ہے کہ منتخب حکومت کے پاس بھی اختیار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ ذمہ داری اور اختیار ات کو الگ نہیں کر سکتے، اس لیے اختیار آرمی چیف کے پاس ہوں مگر ذمہ داری وزیراعظم کے پاس ہو تو کوئی انتظامی نظام کام نہیں کرتا۔‘

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ نئے آرمی چیف نے محسوس کیا کہ رجیم چینج کا تجربہ غلط ثابت ہوا۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جہاں اکثر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پولیس، سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں اور دہشت گرد گروپ ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں حکومت کے ساتھ مذاکرات میں خلل پیدا ہونے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے ملک بھر میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ کردیا تھا جہاں باالخصوص خیبرپختونخوا اور کچھ حد تک بلوچستان کو نشانہ بنایا گیا لیکن پھر اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی گئی جس کو سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا تھا۔

ادھر بلوچستان میں عسکریت پسدن گروپوں نے بھی کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھجوڑ قائم کرلیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کم از کم 44 حملوں میں 134 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 254 زخمی ہوئے۔

حال ہی میں پشاور پولیس لائن میں دہشت گردی کے حملے میں کم از کم 80 لوگ شہید ہوگئے جن میں اکثر پولیس اہلکار شامل تھے۔


اپنا تبصرہ لکھیں