عمران اتنے بڑے آدمی نہیں کہ ہمارے مطالبات پر توجہ نہ دیں، فضل الرحمان


اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی۔ ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ عمران خان اتنے بڑے آدمی نہیں کہ ہمارے مطالبات نہ سنیں۔

فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ کا آج چھٹا روز ہے اور شرکاء سرد موسم کے باوجود بدستور ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہیں۔

تیز ہوائیں چلنے سے  ایچ نائن کے میٹرو ڈپو گراؤنڈ میں موجود شرکاء کے کئی خیمے بھی اکھڑ گئے جب کہ کچھ شرکاء نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے لگائے گئے کنٹینرز میں ہی پناہ لے لی۔

فوٹو: سوشل میڈیا

جلسہ گاہ کی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ جن شرکاء کے پاس بارش سے بچاؤ کا انتظام نہیں وہ کشمیر ہائی وے میٹرو اسٹیشن میں قیام کریں۔

وفاقی وزیر علی زیدی کا ردعمل

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے ٹوئٹر پر کہا کہ دھرنے کے غریب شرکاء سرد موسم اور بارش برداشت کر رہے ہیں جب کہ آزادی مارچ کی قیادت گھروں میں آرام کر رہی ہے ، افسوس کا مقام ہے۔

فضل الرحمان کی چوہدری برادران سے ملاقات

رات گئے مولانا فضل الرحمان چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ گئے جہاں ان کی چوہدری برادران سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کسی پروٹوکول کا پابند نہیں، ملک ہم سب کا ہے، جب کشتی ڈوبتی ہے تو ہم سب ڈوبتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری صاحبان لاہور سے یہاں تشریف لائے، ہم ملک کو اس بحران سے نکالیں گے جو ملک کو درپیش ہے۔

ان کا کہنا تھا ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ اضطراب کا شکار ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان لوگوں کا اضطراب دور نہ کرے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میرا الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن خود کہتا ہےکہ 95 فیصد نتائج پر پریزائیڈنگ افسران کے دستخط نہیں، دستخط نہیں ہیں تو الیکشن خودبخود کالعدم ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کبھی کہتے ہیں کمیشن بناتے ہیں، کبھی کہتے ہیں فلاں جگہ جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو پارلیمانی کمیشن بنا تھا، ایک سال ہو گیا اس کی میٹنگ کیوں نہیں بلاتے، آج ہمیں کہہ رہے ہیں کمیشن کو فعال بنائیں گے، اس اعتبار سے مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے، اس کو سنجیدگی سے لینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحبان سے بھی یہی عرض کیا کہ جو ہمارا مؤقف ہے، اس پر آپ سے رہنمائی بھی لینا چاہتے ہیں، سیاسی اصول اور ہمارے مطالبے کے پیچھے ایک حقیقت ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری رہنمائی کی جا سکتی ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر ہم عوام کو اطمینان دلا سکتے ہیں۔

 فوری استعفیٰ اور دوبارہ الیکشن ہمارے مطالبات ہیں: فضل الرحمان

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ خیر کی باتیں چوہدری برادران نے کیں اور کچھ گلے ہم نے کئے ہیں۔

سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ہم مذاکرات سےانکار نہیں کرتے لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں اور ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان بھٹو سے بڑے لیڈر نہیں، وہ اتنے بڑے آدمی نہیں کہ ہمارے مطالبات پر توجہ نہ دیں، معاملات سنجیدگی سے طے ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کی سمت حکومت کی جانب ہے، ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس میں گھسیٹیں، فوری استعفیٰ اور دوبارہ الیکشن ہمارے مطالبات ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے نپا تلا مؤقف تمام پارٹیوں کے ساتھ طے کیا ہے، اس میں تبدیلی ممکن نہیں، اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس میں تبدیلی لائیں تو پھر وہ کوئی تجویز لائیں، درمیانی راستے والی تجویز پر ہم غور کریں گے کہ قابل قبول ہو سکتی ہے یا نہیں، ضروری نہیں کہ ہم کسی کو فالو کرکے بات کریں۔

ان کا کہنا تھا چوہدری صاحبان کو پی ٹی آئی کے لوگ نہ سمجھا جائے، ان کی اپنی ایک حیثیت ہے، کوشش ہے کہ کسی طرح قوم کو بحران سے نکال سکیں۔

ان شاء اللہ بہت جلد معاملے کا حل نکلے گا: پرویز الٰہی

چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کوشش ہو رہی ہے جتنی جلدی ہو اتنا بہتر ہے، ان شاء اللہ بہت جلد حل نکلے گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیڈلاک کے باوجود رہبر کمیٹی اور حکومتی کمیٹی نے طے کیا کہ معاملے کو احسن طریقے سے آگے بڑھائیں، دونوں کمیٹیوں نے طے کیا کہ اپنی اپنی قیادت سے بات کریں گے، کوئی راستہ نکالیں گے۔

ڈی چوک کے نعرے نہ لگائے جائیں: فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خطاب کیلئے اسٹیج پر آئے تو کارکنوں نے ڈی چوک کے نعرے لگانا شروع کردیے تاہم سربراہ جے یو آئی ف نے شرکاء کو ٹوکا اور کہا کہ ایک دو دن سے دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ ڈی چوک کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہمارے لوگوں کو بھی اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ جب تک رہبر کمیٹی اور تمام اپوزیشن جماعتیں کوئی فیصلہ نہیں کرتیں آپ اس طرح کے نعرے نہ لگائیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی روز سے آزادی مارچ اسلام آباد میں براجمان ہے، مطالبات کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ہمیں کہا جاتاہے کہ لوگ اسلام آباد آئیں گے اور کہیں گے حکومت چلی جائے تو یہ روایت بن جائے گی، اِن لوگوں نے 2014 میں ڈی چوک پر دھرنے پر اعتراض کیوں نہیں کیا تھا، اس آزادی مارچ پر کیوں اعتراض کیاجا رہا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مطالبے کو ماننا پڑے گا، ہم نے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، پوری قوم آپ کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے کہ سیاسی جمود کو توڑا اور دنیا کو بتا دیا کہ احتساب کے نام پر انتقام کا ڈرامہ مزید نہیں چل سکے گا۔

موجودہ حکومت نے چین کی سرمایہ کاری کو غارت کردیا: مولانا فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ اعتماد نہیں رکھ سکے ہیں، ایران ہمارے مقابلے میں بھارت کو اہمیت دے رہاہے، چین اور پاکستان کی دوستی سمندر سے گہری ، شہد سے میٹھی ہے لیکن موجودہ حکومت نے چین کی سرمایہ کاری کو غارت کردیا اور آج چین کا اعتماد بھی خراب کردیا گیا ہے، حکومت نے چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کے بعد چین مزید سرمایہ کاری کا خواہش مند نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیکٹریاں، ملیں اور یونٹس بند ہو رہے ہیں، لاکھوں مزدور بیرروزگار ہو رہے ہیں، پیداواری ادارے بند ہونے سے مارکیٹ میں اشیاء ناپید اور مہنگائی آسمان کو چھوئے گی، گیس مہنگی کردی گئی ہے ،اشیائے ضرورت مہنگی کردی گئی ہیں، پیٹرول بھی مہنگاکر دیا گیا ہے، پاکستان کا ایک ایک دن انحطاط کی طرف بڑھا ہے، جتنا وقت حکومت کو ملے گا روز کی بنیاد پر نیچے جاتے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلی بار پاکستان میں ایک سال میں 3 بجٹ پیش کیے گئے، پہلی بار اسٹیٹ بینک نے بیان جاری کیا کہ وہ ایک ارب روپے کے خسارے میں چلے گئے، تمام دفاتر اور بیوروکریسی جمود کا شکار ہوگئی ہے، بھارت نے ڈیم بنا کر ہمارے پانی پر قبضہ کرلیا ہے، پنجاب کے میدان پورے ملک کی معیشت کو اناج مہیا کرتے ہیں لیکن افسوس ہماری ماضی کی غلط پالیسوں کی وجہ سے بھارت نے پانی روک لیا ہے، یہ ہمارے اس ملک کا انجام کیا جارہا ہے۔

دھاندلی کی حکومت نہیں مانتے: سربراہ جمعیت علمائے اسلام

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب تک کشمیر کمیٹی ہمارے پاس تھی، کسی مائی کے لال کو آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں تھی، آج کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے اور اس پر آنسو بہا رہے ہیں، کیا وزارت داخلہ انکار کرسکتی ہے کہ اسرائیل کا طیارہ پاکستان میں نہیں اترا؟ اسرائیل خائف ہے کہ آزادی مارچ نے اس کی 40 سال کی سرمایہ کاری پرپانی پھیر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اشتعال مت دلاؤ، اگر اشتعال دلاؤگے تو 24 گھنٹے میں تمہیں شکست ہوگی، لہٰذا بات بڑی صاف ہے، ہم دھاندلی کی حکومت نہیں مانتے، ہم کوئی کمیشن نہیں مانتے اور کمیشن بنانے کی ہر تجویز مسترد کرتے ہیں اور دوبارہ الیکشن کے مطالبے پر قائم ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، جتنی جلدی فیصلہ کروگے، اتنے جلدی معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہے، بیساکھیاں ہٹ جائیں تو حکومت زمین پر لاش کی طرح پڑی ہے، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے کب جانا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ مذاکراتی ٹیم کی آنی جانیاں لگی ہوئی ہیں، ہم بھی لطف اندوز ہوتے رہیں گے، مجھے ان چراغوں میں تیل نظر نہیں آتا، اللہ ان کے عقل میں یہ بات لے آئے کہ قوم کیا چاہتی ہے اور قوم کے مطالبے کو کیسے پورا کرنا ہے۔

’ہم نے چور کودن دہاڑے پکڑا اب وہ کہتا ہے تحقیقات کرلو میں چور ہوں یا نہیں‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’یہ کہتے ہیں ہم پارلیمانی کمیٹی بنا دیں گے جو تحقیق کرے گی دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں، ایک سال ہوگیا کمیٹی بنائی تھی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی، پرویز خٹک آج بھی کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق 95 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو قانونی فارم پر نتائج نہیں ملے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ آگئی ہے کہ پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی نکالاگیا تو آپ کیسے ہم سے زبردستی یہ الیکشن منوارہے ہیں ؟ جب الیکشن کمیشن خود یہ رپورٹ دے رہاہے تو کیا اب کوئی تحقیق کی گنجائش ہے ؟

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے چور کو دن دہاڑے چوری کرتے پکڑا اب وہ کہتا  ہے تحقیقات کرلو میں چور ہوں یا نہیں، آج کئی لوگ دہشتگردی کے نام پر اٹھائے گئے اور لاپتہ ہیں، کیاکسی ادارےکویہ حق حاصل ہےکہ شک کی بنیاد پر کسی کو 12 ،12 سال غائب رکھے، اگر کوئی مجرم ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔

خیال رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یکم نومبر جمعے کی شام وزير اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی جو اتوار کی شام ختم ہوچکی ہے تاہم وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے۔

فضل الرحمان نے آزادی مارچ سے خطاب میں تھا کہ وزیراعظم نے دو روز میں استعفیٰ نہ دیا تو یہ اجتماع قدرت رکھتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو گھر جا کر گرفتار کر لے البتہ ہم پُرامن لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ پُرامن رہیں، اداروں کے ساتھ کوئی لڑائی یا تصادم نہیں،اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے بھی غیر جانب دار رہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مطالبات

آزادی مارچ کی قیادت کرنے والی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بظاہر 10 مطالبات سامنے رکھے ہیں۔

ان مطالبات میں ناموس رسالت کے قانون کا تحفظ، ریاستی اداروں کے وقار کی بحالی اور اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال سے روکنا، انسانی حقوق کا تحفظ اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانا، مہنگائی کو روکنا اور عام آدمی کی زندگی کو خوشحال بنانا اور موجودہ حکومت کو ختم کرکے عوام کو اس سے نجات دلانا اور نئے انتخابات کرانا وغیرہ شامل ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دو اہم  مطالبات وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات کے معاملے پر ڈیڈلاک ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں