’عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آرٹیکل 94 کی مدد سے کرسی نہیں بچائی جاسکتی‘

’عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آرٹیکل 94 کی مدد سے کرسی نہیں بچائی جاسکتی‘


وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت اگر تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہتے تو آئین کے آرٹیکل 94 کے تحت وہ صدر کی مدد سے اپنی کرسی نہیں بچا سکتے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہنا تھا کہ ہمارے لیے اس ملک کا آئین اور قانون اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن جو لوگ سیاست کرکے نہیں آئے ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ عمران خان اور ان کے وزرا پچھلے تین ہفتے سے اس آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کی حفاظت کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا تھا تو انہوں نے عمران خان کو 5 روز میں استعفیٰ دینے کی تنبیہ کی لیکن پانچ روز بعد جب استعفیٰ پیش نہ کیا گیا تو اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد سے عمران خان اور ان کے وزرا کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی خلاف ورزی انہوں نے یہ کی کہ اجلاس وقت پر نہیں بلایا گیا، آئین میں لکھا ہے کہ اجلاس 14 روز میں بلانا ہے یہ نہیں لکھا کہ چودھویں روز بلانا ہے، پنجاب اسمبلی کا اجلاس تو عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرتے ساتھ ہی بلا لیا گیا۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے سبب تاریخوں میں تصادم ہورہا تھا تو آپ اس سے قبل اجلاس بلا سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 95 میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے لکھا گیا کہ اگر 172 قومی اسمبلی کے اراکین کے ووٹ کے بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے وزیر اعظم عہدہ چھوڑنے کے پابند ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 94 کے تحت اگر وزیر اعظم اپنے عہدہ چھوڑ کر صدر مملکت سے اپنے عہدے پر رہنے کی درخواست کرے تو صدر انہیں عہدے پر رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ آرٹیکل 94 کا نفاذ 95 کے بعد نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان تحریک عدم کے اعتماد کے بعد عہدے سے برطرف ہوجاتے ہیں تووہ صرف ایک رکن قومی اسمبلی ہوں گے اور صدر کو یہ اختیار نہیں ہے وہ کسی بھی ایم این اے کو وزیر اعظم بنادے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ملک ایک منٹ بھی نہیں چل پائے گیا، لیکن آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے عہدے پر کوئی نہ ہو تو صدر کو اس ہی وقت اسمبلی کا اجلاس بلانا ہوگا، عہدے کے لیے امیدوار نامزد کر کے انتخاب کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ملک ان بحرانوں کا مزید متحمل نہیں ہے، کہتے ہیں کہ اس ملک کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی ایک منٹ کی سزا دے کر نا اہل قرار دیا تھا، اور کہا گیا تھا کہ وہ سزا یافتہ ہیں تووہ مزید وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان نہیں رہ سکتے، انہیں اس بات کی سزا دی گئی تھی کہ انہوں صدر آصف علی زرداری کے خلاف خط نہیں لکھا تھا، حالانکہ آئین کہتا ہے کہ جب تک صدر عہدے پر ہیں ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو بھی عدالت کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعے کسی وزیر اعظم کو ہٹایا جارہا ہے آپ کو توخوشی ہونی چاہیے کہ سیاست میں شعور پیدا ہوا ہے۔

انہوں نےکہا کہ اسلام آباد میں قائم سندھ ہاؤس میں جو واقعہ پیش آیا اس میں اسلام آباد کی انتظامیہ ملی ہوئی تھی، ہم نے اس کےخلاف مقدمہ بھی درج کروایا ہے، سپریم کورٹ واضح طور پر احکامات دے چکی ہے کہ سندھ حکومت اس معاملے میں درخواست دی ہے معاملے کی تحقیقات کریں۔

وزیر اعلیٰ کہا کہ آئی جی اسلام آباد کو تنبیہ کرتا ہوں اس کیس کو میرٹ پر چلائیں، اگر پی ٹی آئی پر حملہ دہشت گردی ہے تو ایک صوبے پر حملہ دہشت گردی نہیں ہے، سندھ ہاؤس اسلام آباد میں صوبہ سندھ کی علامت ہے، دہشت گردی کیس میں دفعات اس میں شامل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ سندھ کی حکومت ابھی تک مستحکم ہے پنجاب کی حکومت بدلنے جارہی ہے بلوچستان میں ایک حکومت جاچکی ہے دوسری کا علم نہیں، خیبر پختونخوا کے حوالے سے بھی باتیں سن رہے ہیں۔

مراد علی شاہ نے پیغام دیا کہ سب آئین و قانون کے مطابق عمل درآمد کریں اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کریں، ایسے بیانات دینے سے گریز کریں جو آپ کو غداری کا مرتکب کریں، میں وزیر اعظم کو نصیحت دینا چاہتا ہوں کہ اپنے لوگوں میں ڈھونڈیں کہ کس نے انہیں اس حال تک پہنچایا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بہت کم لوگ ہوں گے جو عمران خان کی حمایت کر ہیں بیرون ملک مقیم چند پاکستانی کی ان کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پی ٹی آئی مارچ کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی لیکن ان کے پاس 250 سے 300 سے زیادہ لوگ نہیں تھے، یہ لوگ بس اپنے 172 ووٹ پورے کرنا چاہتے تھے، جو مکمل نہیں ہوئے تو یہ لاتوں گھوڑوں کی بات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان حکومت میں آنا چاہتی ہے یا نہیں لیکن ان کے ساتھ صوبے اور کراچی کی ترقی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیں کہا کہ وہ خط دیکھا کر ملک کے تعلقات نہیں خراب کرنا چاہتے حالانکہ انہوں نے وہ خط خود ہوا میں لہرایا تھا اگر کسی ملک نے خط لکھا تھا تو کیا اس خط ہوا میں لہرانے سے اس ملک سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کیا کہ ایم کیو ایم سے ہونے والی ملاقاتوں میں کسی انتظامی امور کی بات نہیں ہوئی۔

مراد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم اپنی کرسی بچانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں، اگر ان کی جان کو خطرات تھے توانہوں نے اپنے وزرا کو کیوں نہیں بتایا۔


اپنا تبصرہ لکھیں