سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب، مزید 57 افراد جاں بحق

سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب، مزید 57 افراد جاں بحق


سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلاب گزرا اور منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے سندھ کے ضلع دادو کو بڑے پیمانے پر تباہی کے خطرے کا سامنا ہے۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق آج صبح 6 بجے سکھر بیراج سے 5 لاکھ 59 ہزار 988 کیوسک کا اونچے درجے کا سیلاب گزرا۔

دادو سے رکن قومی اسمبلی رفیق احمد جمالی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ دوپہر کو صورت حال مزید خراب ہوئی کیونکہ پانی ریلہ جوہی کی تحصیل کی طرف بڑھنے لگا جہاں مختلف پہلے ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔

اہم پیش رفت


  • گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 57 افراد جاں بحق، ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار 265 ہوگئی
  • سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے
  • منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں اضافہ
  • فرانس سے مزید امداد کی آمد
  • محکمہ موسمیات کی پنجاب، خیبرپختونخوا میں مزید بارش کی پیش گوئی
  • متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام جاری
  • برطانوی ہائی کمشنر کا نوشہرہ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ

دادو ضلع سیلاب کا نیا مرکز بن گیا ہے کیوں کہ ملک کے شمالی علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد پانی ملک کے جنوب کی طرف بہہ کر آرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری، گلوبل وارمنگ سے متاثرہ پاکستان کی فوری امداد کرے، احسن اقبال

تاہم گڈوبیراج میں پانی کا بہاؤ صبح سے کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔

گڈو بیراج کی صلاحیت 12 لاکھ کیوسک پانی کے بہاؤ کی ہے جہاں سے شام 6 بجے کو 5 لاکھ 61 ہزار 118 کیوسک سیلاب کا گزرا تھا جو دوسرے نمبر سب سے زیادہ بہاؤ ہے، آج صبح 6 بجے کم ہو کر 5 لاکھ 53 ہزار 183 کیوسک تک آگیا، بہاؤ میں اس کے بعد دوپہر 12 بجے مزید کمی ہوئی اور 5 لاکھ 32 ہزار 634 کیوسک تک آگیا۔

گڈو اور سکھر بیراج میں بالترتیب 23 اور 25 اگست کو پہلی مرتبہ سب سے زیادہ 5 ہزار 80 کیوسک سیلاب کا گزر ہوا تھا اور یہ سیلاب اب کوٹری بیراج میں سستی روی سے پہنچ رہا ہے۔

کوٹری بیراج میں 5 لاکھ 43 ہزار 592 کیوسک کا بہاؤ اوپر اور 5 لاکھ 32 ہزار 787 کیوسک نچلی سطح پر ریکارڈ کیا گیا، بہاؤ میں آج اس وقت اضافے کا رجحان دیکھا گیا جب صبح 6 بجے اوپر کی طرف 5 لاکھ 8 ہزار 102 کیوسک اور نچلی سطح پر 4 لاکھ 98 ہزار 497 کیوسک گزر ہوا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور شمال کے پہاڑوں میں گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب آیا جس سے 14 جون سے اب تک کم از کم ایک ہزار 265 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Churail Sarwat (@sarwatg)

ان میں سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 57 ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ اب تک زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 ہزار 577 ہے۔

ایک روز قبل دادو شہر سیلابی پانی میں گھرا ہوا تھا جس میں شہر کے شمال میں خیرپور ناتھن شاہ شہر، جنوب میں منچھر جھیل، مغرب میں مین نارا ویلی ڈرین اور مشرق میں دریائے سندھ پانی سے بپھرا ہوا تھا۔

ایک مقامی رہائشی بشیر خان جو علاقے میں باقی لوگوں سے رابطے میں ہیں کا کہنا تھا کہ دادو ضلع میں کئی دیہات 11 فٹ تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ‘میرا گھر پانی کے اندر ہے، میں نے 4 روز پہلے اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھر سے نقل مکانی کی تھی’۔

انہوں نے کہا کہ پڑوسی ضلع میہڑ میں رہائشی افراد سیلابی پانی کو قصبے میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش میں ایک بند بنا رہے تھے۔

کے این شاہ سٹی میں سیلاب سے گھرے لوگ محفوظ مقام پر منتقل ہوتے ہوئے—تصویر: اے پی پی
کے این شاہ سٹی میں سیلاب سے گھرے لوگ محفوظ مقام پر منتقل ہوتے ہوئے—تصویر: اے پی پی

دریں اثنا کوٹری بیراج کے چیف انجینئر نے ڈان کو فون پر بتایا کہ ‘اونچے درجے کے سیلاب کی سب سے بلند سطح 25 اگست کو سکھر بیراج سے گزری تھی’۔

اس وقت وہ پراعتماد تھے کہ اس کے علاقائی دائرہ اختیار میں دریا کے کنارے محفوظ اور اتنے مضبوط ہیں کہ بہاؤ کو برداشت کر سکیں، سکھر بیراج سے 25 اگست کو صبح 6 بجے 5 لاکھ 79 ہزار 753 کیوسک کا پہلا بلند سیلابی ریلا گزرا تھا۔

اس کے علاوہ منچھر جھیل میں بھی پانی کی سطح بڑھ رہی تھی، جس کے باعث جامشورو کے ڈپٹی کمشنر فرید الدین مصطفیٰ نے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا تھا۔

انہوں نے آج ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پانی کی سطح مزید بلند ہوتی ہے تو قریبی علاقوں کے مکینوں کو نکالا جا سکتا ہے۔

سیہون کے ایک رکن قومی اسمبلی سردار سکندر راہوپوٹو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جھیل کے حفاظتی بندوں کی نگرانی کی جا رہی ہے اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Churail Sarwat (@sarwatg)

ایک روز قبل جھیل میں مین نارا ویلی ڈرین سے پانی آرہا تھا جسے رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین کہا جاتا ہے، اس ڈرین میں پہاڑوں سے سیلاب آیا جس کے سبب متعدد مقامات پر شگاف کی اطلاع ملی۔

اس کے بعد دریائے سندھ میں جھیل کے بہاؤ کی پیمائش تقریباً 10 ہزار سے 15 ہزار کیوسک رہی۔

محکمہ آبپاشی کے افسر مہیش کمار نے منچھر جھیل سے ڈان کو بتایا کہ اب دریائے سندھ پانی کا بہت زیادہ بہاؤ قبول نہیں کر رہا کیونکہ اس میں پہلے ہی بہت زیادہ پانی ہے، اس سے قبل جھیل سے 30 ہزار کیوسک کا پانی باآسانی چھوڑا جا رہا تھا۔

مزید امداد کی آمد

پاکستان شدید سیلاب سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد یا آبادی کا 15 فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔

اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے 16 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی ہے تاکہ سیلاب کے اثرات سے نمٹنے میں مدد کی جا سکے جسے اس نے ایک ‘بے مثال موسمیاتی تباہی’ قرار دیا۔

وفاقی وزارت صحت نے ترجمان کے حوالے سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ آج صبح سیلاب متاثرین کے لیے امداد لے کر آنے والا ایک فرانسیسی طیارہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا۔

ترجمان نے بتایا کہ وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے طیارے کے عملے انجینئرنگ ٹیم اور ان کے ہمراہ فرانسیسی سفیر کا استقبال کیا۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی میں ‘حیرت انگیز کام’ پر سرکاری محکموں اور سرکاری ملازمین کو سراہا۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ضروری خدمات کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر قومی کوشش جاری ہے۔’

متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام جاری

بجلی کی بحالی کے لیے کام جاری ہے، مریم اورنگزیب

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی کی بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے۔

سلسلہ وار ٹوئٹس میں پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 81 تباہ شدہ اسٹیشنوں میں سے 46 گرڈ اسٹیشنوں سے بجلی کی سپلائی بحال کر دی گئی ہے۔

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ سیلاب سے ابتدائی طور پر 11 کلو وولٹ کے 881 فیڈرز کو نقصان پہنچا تھا اور اب تک ان میں سے 475 فیڈرز کی مرمت کی جا چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 35 فیڈر بجلی کے کرنٹ لگنے کے خطرے کی وجہ سے ابھی تک فعال نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے 25 فیڈرز بلوچستان میں اور 5 سندھ اور خیبر پختونخوا میں تھے۔

مریم اورنگزیب نے بتایا کہ سبی سے کوئٹہ اور دادو سے خضدار تک چلنے والی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی دو ٹرانسمیشن لائنیں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: دشوار گزار پہاڑی علاقے میں امدادی سامان پھینکنے پر مجبور تھے، بلوچستان حکومت

انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو 300 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے لیے دادو اور خضدار کے درمیان لائن کی مرمت کل تک کر دی جائے گی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ سبی اور کوئٹہ کے درمیان ٹرانسمیشن لائن کی مرمت کا کام 10 ستمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

ادھر وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی میں ‘حیرت انگیز کام’ پر سرکاری محکموں اور سرکاری ملازمین کو سراہا۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ضروری خدمات کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر قومی کوشش جاری ہے۔’

مزید بارشوں کی پیش گوئی

محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے لیکن گزشتہ ہفتوں کی نسبت ستمبر کے دوران کے مقابلے میں اس کی شدت کم ہے۔

آج جاری کردہ پیش گوئی میں پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کہا کہ منگل تک ملک کے بالائی علاقوں میں بارش/آندھی/گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے کہا کہ بحیرہ عرب سے مون سون کی کمزور ہوائیں ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں داخل ہو رہی ہیں۔

پیش گوئی کے مطابق ان ہواؤں کے اثرات کے تحت ہفتہ سے منگل تک میانوالی، خوشاب، سرگودھا، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، جھنگ اور فیصل آباد، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد، راولپنڈی، مری، اٹک، چکوال، جہلم، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ میں تیز ہوائوں/گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ اتوار اور پیر کو خیبرپختونخوا میں دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مالاکنڈ، باجوڑ، پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ، کرم، کوہاٹ اور وزیرستان میں تیز ہواؤں/آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں