سلامتی کونسل میں امریکا ۔ طالبان معاہدے کے حق میں قرارداد منظور


اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے حق میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہمارے اور طالبان کے درمیان معاہدے اور امریکا اور افغان حکومت کے مشترکہ اعلامیے کے حق میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘اقوام متحدہ کی قرارداد میں طالبان اور افغان حکومت دونوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات جاری رکھیں اور بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز کریں۔’

یاد رہے کہ افغان طالبا اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدہ ہوا تھا جس پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ ملا عبدالغنی نے دستخط کیے تھے۔

چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

  • طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
  • افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔
  • طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
  • انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فرمان پر دستخط کر دیے

معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اعتماد سازی کے لیے طالبان کے 5 ہزار جبکہ افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے۔

تاہم افغان صدر اشرف غنی نے 2 مارچ کو اپنے بیان میں طالبان قیدیوں کی رہائی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق شق کو نہیں مانتے۔

اشرف غنی نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا’۔

افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اس معاہدے کی جزوی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں 5 ہزار طالبان جنگجوؤں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ ‘یہ امریکا کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے’۔

دوسری طرف طالبان نے افغان صدر کے بیان پر ردعمل میں کہا تھا کہ جب تک ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے اس وقت تک بین الافغان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے اور طویل جنگ کے خاتمے کے لیے اس کو بنیادی قدم قرار دیا تھا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ‘اگر ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں ہوئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے، اس تعداد میں 100 یا 200 کی کمی بیشی ہو سکتی ہے جس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں: قیدیوں کی مشروط رہائی افغان امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے، طالبان

اشرف غنی نے دو روز قبل دوسری مدت کے لیے افغانستان کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار طے پاگیا ہے اور اس حوالے سے صدارتی فرمان جاری کردیا جائے گا۔

گزشتہ روز انہوں نے طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیئے تھے۔

افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے چند طالبان قیدیوں کی رہائی کو ‘مشروط’ کرنا دراصل امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے میں کسی قسم کی کوئی شرط موجود نہیں تھی۔


اپنا تبصرہ لکھیں