سعودی عرب نے ایمازون کے سی ای او کا فون ہیک کرنے کے الزامات مسترد کردیے


سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایمازون ڈاٹ کام انکارپوریشن کے بانی جیف بیزوز کے فون کی ہیکنگ میں ریاست کے ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس مضحکہ خیز ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی اخبار دی گارجین نے گزشتہ روز ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ شائع کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جیف بیزوز کا فون 2018 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذاتی واٹس ایپ اکاؤنٹ سے ملنے والے پیغام کے بعد ہیک کرلیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد کے زیر استعمال نمبر سے بھیجا گئے انکرپٹڈ پیغام میں ایسی فائلز بھیجی گئیں جس سے جیف بیزوز کے فون سے چند گھنٹوں میں بڑی تعداد میں ڈیٹا چوری کیا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد

اخبار نے سعودی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ہیکنگ کی وجہ جیف بیزوز کی واشنگٹن پوسٹ کی ملکیت ہوسکتی ہے جہاں سعودی عرب کے ناقد مقتول صحافی جمال خاشقجی کے آرٹیکلز شائع ہوتے تھے۔

ایمازون کے چیف ایگزیکٹو اور سعودی حکومت کے درمیان گزشتہ سال کے آغاز میں تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب انہوں نے خاشقجی کے قتل پر واشنگٹن پوسٹ کی خبروں پر سعودی عرب کی ناراضی کا اشارہ دیا تھا۔

در گارجین کا مزید کہنا تھا کہ جیف بیزوز کے فون کے فورنزک جائزے کی رپورٹ کو اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اگنیس کالامارد نے بھی دیکھا جنہیں سعودی عرب سے معاملے پر وضاحت طلب کرنے کے لیے کافی شواہد ملے ہیں۔

انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی بھی تحقیقات کی تھیں اور انہیں سعودی ولی عہد اور ریاستی انتطامیہ کے دیگر اراکین کے خلاف ‘قابل اعتماد’ شواہد ملے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ نے سعودی ولی عہد کو خاشقجی قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا

جیف بیزوز کے سیکیورٹی چیف کا اس وقت کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ان کے فون تک رسائی حاصل کی اور نجی معلومات حاصل کیں جن میں ان کے اور سابق ٹی وی اینکر کے درمیان میسجز بھی شامل تھے۔

تاہم سعودی عرب نے کہا کہ سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس سمیت جیف بیزوز کی فون ہیکنگ سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

امریکا میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ ‘حالیہ میڈیا رپورٹس جس میں کہا گیا کہ سعودی عرب جیف بیزوز کے فون کی ہیکنگ میں ملوث ہے، مضحکہ خیز ہیں، ہم ان دعوؤں پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں’۔

دوسری جانب ایمازون نے معاملے پر رائے دینے سے انکار کردیا۔


اپنا تبصرہ لکھیں