ہارورڈ: کینسر کی تشخیص کے ضمن میں ایک خوش خبری سامنے آئی ہے کہ ماہرین نے خون کا ایک ایسا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو لگ بھگ 50 اقسام کے سرطان کی شناخت کرسکتا ہے۔
اس بلڈ ٹیسٹ کی بدولت کئ اقسام کے کینسر کی شناخت ان کی ابتدائی علامات سے بھی پہلے کرنا ممکن ہوگا کیونکہ یہ خون میں سرطان کی وجہ بننے والے معمولی ذرات اور کیمیکل بھی محسوس کرلیتا ہے۔ بڑے پیمانے پر استعمال کے بعد اس سے بروقت علاج کی راہ ہموار ہوگی اور قیمتی جانیں بچانا ممکن ہوگا۔
خون کے اس ٹیسٹ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی افادیت کے متعلق 99 درستگی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ تاہم اینلز آف اونکالوجی میں شائع ابتدائی رپورٹ میں اسے تیار کرنے والے سائنسدانوں نے مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔
ڈانا فاربر کینسر انسٹی ٹیوٹ اور ہارورڈ میڈیکل اسکول نے مشترکہ طور پر یہ ٹٰیکنالوجی بنائی ہے۔ اس وقت تک چار ہزار مختلف مریضوں پر اسے آزمایا گیا ہے جس سے کینسر کا مرض ابتدائی درجے میں پکڑا جاتا ہے۔
خون کے اس ٹیسٹ میں خلیے سے الگ تھلگ ڈی این اے کو نوٹ کیا جاتا ہے جو کینسر کی علامات ہوسکتے ہیں۔ یہ ڈی این اے انتہائی ابتدائی رسولیوں سے ٹوٹ کر الگ ہوتے رہتے ہیں اور خون میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ جن ہزاروں افراد کے خون کے نمونے لیے گئے ہیں ان میں کینسر کے مریض اور صحتمند دونوں طرح کے افراد شامل تھے۔
اس ٹیسٹ کے ذریعے، پھیپھڑوں، معدے، بیضہ دانی اور دیگر اقسام کے کینسر کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ابتدائی سروے میں 96 فیصد حد تک درست نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل پروفیسر جیف آکسنرڈ کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ کو آبادی کے بڑے حصے میں درجنوں اقسام کی کینسر کی اسکریننگ کے لیے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس کامیابی کے بعد پہلے مرحلے پر اس کی انسانوں پر آزمائش شروع ہوگئی ہے۔ لیکن کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ان مریضوں میں خون کے ٹیسٹ کے علاوہ دیگر روایتی ٹیسٹ بھی کئے جائیں گے۔
کینسر کے دیگر ماہرین نے اس ٹیسٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے اور برسوں کی محنت کے بعد اب خون کے ذریعے سرطان کی شناخت ایک حقیقت بنتی جارہی ہے۔