حکومت کا وفاقی وزارتوں میں ماہرین تعینات کرنے کا فیصلہ


اسلام آباد: حکومت نے امریکی نظامِ حکومت میں انڈر سیکریٹری کی طرز پر وفاقی وزارتوں کے اعلیٰ عہدوں پر بہترین قابلیت کے حامل پیشہ ور افراد کو تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ان عہدیداروں کو ’تکنیکی مشیر‘ کا نام دیا جائے گا جن کی تنخواہ مخصوص مدت کے لیے نجی شعبے میں مارکیٹ کی شرائط مطابق ہوگی۔

پالیسی تجاویز اور ماہرانہ رائے دینے کے لیے انہیں وفاقی سیکریٹریز سے اونچے اور وزرا کے ماتحت عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔

اس بارے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ان ماہرین کو منیجمنٹ پے (ایم پی) یا اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس) پر ملازمت دی جائے گی لیکن عملی طور پر وہ گریڈ 23 کے افسران ہوں گے جبکہ وفاقی سیکریٹری کا گریڈ 22 ہوتا ہے۔

ایک سینئر عہدیدار کے مطابق یہ امریکی انتظامیہ کی طرح ہوگا جہاں صدر حکومتی ویژن اور اہداف کے مطابق کام کرنے کے لیے اپنے تکنیکی ماہرین پر مشتمل ٹیم لاتے ہیں اور وہ ماہرین زیادہ تر صدارتی مدت تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اراکین کو یقین ہے کہ سینئر بیوروکریسی کی موجودہ کھیپ حکومت کے افعال صحیح طریقےسے چلانے میں اہم ترین رکاوٹ ہے۔

مزاحمت کی توقع

دوسری جانب مجوزہ حکومتی منصوبے پر بیوروکریسی کی جانب سے مزاحمت کی توقع ہے کیوں کہ کچھ اعلیٰ افسران ذاتی طور پر ’نوجوان سپر بیوروکریٹس‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قانونی طریقہ کار اور رول آف بزنس کے تحت اس قسم کے عہدوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

اس سلسلے میں جب وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 15 وفاقی وزارتوں کو ترجیح دی ہے جہاں پہلے مرحلے میں تکنیکی مشیر تعینات کیے جائیں گے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ان مشیران کا عہدہ سیکریٹریز سے بالا اور وفاقی وزیر سے کم ہوگا۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ بھی بتایا کہ منیجمنٹ پوزیشن کے پے اسکیلز (ایم پی-1) کو بہتر بنایا جارہا ہے تاکہ بہترین ماہرین مائل ہوسکیں یوں ایک ایم پی-1 مشیر 7 لاکھ روپے سے زائد رقم حاصل کرسکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت وزارت تعلیم میں بہترین قابلیت کے حامل ایک اعلیٰ سطح کے تکنیکی ماہر کو باقاعدہ طریقہ کار کے ذریعے تعینات کرچکی ہے اور یہی کام 15 منتخب وزارتوں میں کیا جائے گا۔

اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو بھجوائی گئی سمری میں جن 15 وزارتوں کی نشاندہی کی گئی اس میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، خزانہ، توانائی، پیٹرولیم، آبی وسائل، تجارت، ہوا بازی، تحفظ خوراک، صنعت و پیداوار، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونکیشن، ماحولیاتی تبدیلی، بحری امور، ٹیکسٹائل صنعت اور قومی صحت سروس، ریگولیشن اور کوآرڈنیشن شامل ہیں۔

ان عہدوں پر تعیناتیوں کا عمل ہر عہدے کی مخصوص شرائط کے تحت ان کا متعلقہ محکمہ یا وزارت کرے گی، کانٹریکٹ بنیاد پر ہونے والی ان تعیناتیوں کے کے لیے وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی منیجمنٹ سروس سے مشاورت بھی کی جائے گی۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیر اعظم کو بتایا کہ محکمہ خزانہ نے اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل (ایس پی پی ایس-1،2،3) تیار کرلیے ہیں جبکہ ایم پی-1، 2 اور 3 کو بھی اپ گریڈ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان تکنیکی ماہرین کو مارکیٹ سے بھرتی کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک عہدیدار نے کہا کہ وزارت خزانہ نے مسابقتی انتخاب کے عمل ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے لیے علیحدہ سے پیشہ وارانہ قابلیت کے حامل افراد کے ایک گروہ کی خدمات حاصل کی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ڈھائی سے 3 لاکھ روپے ہوگی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اعلیٰ افسران کا گروپ وزارتوں میں تکنیکی مشیران کی تعیناتی کو چیلنج کرنے والا تھا اور اس بات کا خواہشمند تھا کہ حکام کی درجہ بندی میں ایک اور درجے کا اضافہ کرنے کے بجائے آزادانہ ماہرین کی رائے لینے کے لیے تکنیکی مشیر کا ایک حلقہ قائم کیا جائے۔

اس ضمن میں ایک سابق سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک انقلابی تصور ہے لیکن اس کے لیے حکومتی معاملات کے اصولوں میں ترامیم کرنی پڑے گی اور تکنیکی مشیر اور سیکریٹری میں اختیارات کی جنگ چلتی رہے گی‘۔


اپنا تبصرہ لکھیں