ترکی کے صدر جب طیب اردواننے ترکی کے شہر انقرہ میں اے کے پارٹی کے صدر دفاتر میں صوبائی سربراہوں سے توسیعی ملاقات کی۔
رجب طیب اردگان نے اپنی حکمران انصاف و ترقی پارٹی کے صوبائی سربراہوں کی ایک میٹنگ میں کہا ، فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرتا ہے۔
“اس منصوبے کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کو الحاق کرنا ہے۔”یروشلم ترکی کے لئے ایک “سرخ لکیر” ہے اس بات پر زور دیتے ہوئے، اردگان نے کہا کہ یروشلم عالمی امن کی کلید ہے کیونکہ یہ ہزاروں سالوں سے ہے۔
منگل کے روز، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاھو کے ساتھ مل کر وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی فلسطین تنازعہ کو ختم کرنے کا اپنا منصوبہ جاری کیا، جس میں کوئی فلسطینی عہدیدارموجود نہیں تھا۔
اس دوران ، ٹرمپ نے یروشلم کو “اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت” کہا۔ ترکی کبھی بھی امریکہ کے منصوبے کو تسلیم اور قبول نہیں کرے گا۔
دوسری جانب اردگان نے زور دے کر کہا کہ ترکی کبھی بھی اسرائیل کی “بدمعاش ریاست” کو قبول نہیں کرے گا، جو سڑکوں پر بے گناہوں کو سزائے موت دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، “یروشلم کو مکمل طور پر اسرائیل کے خونی پنجوں میں چھوڑنا پوری انسانیت کی سب سے بڑی برائی ہوگی۔”
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکا کی جانب سے فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مجوزہ منصوبے کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کو ‘غدار بھی قرار دے دیا۔
ترک صدر نے پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘بعض ایسے عرب ممالک ہیں جو امریکی منصوبے کی حمایت کرتے ہیں وہ یروشلم (بیت المقدس) کے ساتھ، اپنے لوگوں کے ساتھ اور اس سے بھی اہم بات کہ پوری انسانیت کے خلاف غداری کر رہے ہیں’۔
خیال رہے کہ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا ‘غیر منقسم دارالحکومت’ رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب ادوان نے مزید کہا کہ اگر خطے کی صورتحال کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو ترکی، شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے کیونکہ روس کی حمایت یافتہ شامی سرکاری فوج کے حملوں سے ترکی میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ‘اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہوجائے گا’۔