تحریک انصاف کے دوستوں کے نام ایک کھلا خط: ماضی کے آئینے میں حال کا ادراک اورمستقبل کی رہنمائی


تحریک انصاف کے دوستوں کے نام ایک کھلا خط: ماضی کے آئینے میں حال کا ادراک اورمستقبل کی رہنمائی

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

رات کی تاریکی ہے  اور  ایسے میں ایک لیمپ جل رہا ہے جسکی روشنی مدھم ہے، اور اس کے گرد بننے والے سائے جیسے مجھے کسی گزرے وقت کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں میرے داہنے شانے کتابوں سے بھری الماری ہے میرے  ہاتھ میں قلم ہے، لیکن میں آج  لکھنے سے زیادہ سوچ رہا ہوں ماضی کی دھندلی یادیں میرے ذہن کے پردے پر ابھر رہی ہیں، جیسے کوئی پرانا منظرنامہ دوبارہ سے چل رہا ہو۔ میں نے قلم کو اپنی انگلیوں میں پکڑا ہوا ہے اور میں گہری سانس لے رہا ہوں اور جیسے ہی میں نے لکھنا شروع کیا کمرے کی خاموشی اور بھی گہری ہو گئی۔

“میرے دوستو…”،

میں نے دل ہی دل میں کہا۔ “ یہ وقت رک کر ماضی کو دیکھنے اور حال کے اندھیروں میں روشنی ڈھونڈنے کا ہے۔” آئیے ہم ماضی کے دریا میں غوطہ زن ہوتے ہیں جہاں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کا ایک انمول سبق یہی  ہے کہ ماضی کے تجربات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ ہماری غلطیوں، کامیابیوں، اور ان کے نتائج کی تصویر ہوتی ہے۔ ہمیں زندگی میں کبھی کبھی رک کر ماضی کے آئینے میں خود کو دیکھنا پڑتا ہے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہم کہاں غلطی پر تھے اور کہاں درست ہیں یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہم اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں تاکہ آنے والے کل میں ہم ان غلطیوں کا شکار نہ ہوسکیں آج، میں تحریک انصاف کے حامیوں سے اسی جذبات کے تحت مخاطب ہوں۔میرے ماضی کے پردے پر ایک منظرنامہ اُبھر رہا ہے جب  آپ لوگ عمران خان کے فیصلوں کو تقدیر کی لکیر سمجھ کر قبول کرتے تھے جب آپ اشٹیبلشمنٹ کو اپنا مضبوط قلعہ سمجھتے تھے یہ وہ وقت تھا جب آپ حق اور سچ لکھنے والوں کے خلاف تھے آپ انکو غدار کے القابات سے نوازتے تھے جو بھی جرنیلوں اور انکے حواریوں کے خلاف قلم اٹھاتے اور انپر تنقید کی سعی کرتے۔

یاد کریں، وہ دن جب آپ نے مجھ سمیت ان صحافیوں کو غدار کہا جو اشٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر سوال اٹھاتے تھے۔ وہ کالم نگار جو آئین کی بالادستی کی بات کرتے تھے، وہ سیاستدان جو عوامی مینڈیٹ کا دفاع کرتے تھے آپ نے انہیں دشمن سمجھا، ان کی باتوں کو جھٹلایا آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں، جب کوئی صحافی یا لکھاری اشٹیبلشمنٹ اور فوجی مداخلت پر سوال اٹھاتا تھا، تو آپ انہیں ملک دشمن، غدار، یا “بکا ہوا”  “ لفافی “ جیسے القابات سے نوازتے  تھے۔ وہ لوگ وہی تھے جو آئین کی بالادستی اور سول قیادت کے حق میں لکھتے تھے مگر وہ سب اسوقت آپ سبکی تنقید اور نفرت کا نشانہ بنتے تھے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ کس طرح آپ نے سیاسی اختلاف رکھنے والے سیاستدانوں کو بُرے القابات سے نوازا؟ یہ سلسلہ رکا نہیں ابتک جاری ہے، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس وقت آپ کی تنقید کا محور وہی اشٹیبلشمنٹ ہے جس کے کردار کو کل  آپ خود اپنی سیاست کا محور سمجھتے تھے؟

یہ 2011 کا زمانہ تھا، یہ وہ وقت تھا جب فوج اور آئی ایس آئی نے آپکو اپنے ساتھ ملایا، انکی حمایت آپ کی کامیابی کی چابی بن گئی تھی، یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف نے اشٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے غیر اعلانیہ اتحاد کی بنیاد رکھی۔ عمران خان کی تقریریں اور جلسے اشٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہوتے  تھے ، ایمپائر کی انگلی کی بات بڑے فخر سے بیان کی جاتی تھی اسوقت آپ میں ایک نیا جوش اور توانائی تھی۔اسوقت  جیسے ایک بادشاہ کا تاج کسی نیک دل وزیر کے سر پر سجا ہو، ویسے ہی وہ حمایت عمران خان کی سیاست کو ایک نئی شکل دینے میں مددگار ثابت ہوئی۔ ہر بیان، ہر جلسہ ایک نئی قوت بن کر ابھرا، کیونکہ پیچھے وہ طاقتور ہاتھ تھے جنہوں نے انکو سہارا دیا  لیکن یہ کھیل ہمیشہ یکطرفہ نہیں رہتا۔ آپ ماضی کے جھرنکوں میں جھانکیں 2014 کے دھرنے کو یاد کریں، جب آپ نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا اسکے دروازے توڑے اور پی ٹی وی کے دفاتر پر قبضہ کیا اور ایک منتخب حکومت کو گرانے کی کوشیش کیں آپکی پشت پر فوج کا ہاتھ تھا آپ تمام سیاستدانوں کو چور چور کہہ کر پکارتے تھے ۔ اسوقت جو کچھ ہورہا تھا وہ سب کچھ ایک ایسے جمہوری نظام کے لیے خطرہ تھا جس کے آپ خود بھی دعویدار تھے مگر آپ نے منتخب حکومت کو گرانے کے لیے طاقت کے استعمال کی کوشیش کیں، دھرنے کی سیاست شروع کی گئی وہی حکومت جسے عوامی مینڈیٹ حاصل تھا مگر فوج آپکی پشت پر تھی اسلیئے دھرنے بھی لگے اور عرصہ دراز طوفان بدتمیزی جاری رہا، پھر الیکشن ہوا  آرمی نے آپکو دھاندلی کرکے جتوایا، کیا آپ نے اس وقت سوچا تھا کہ یہ سب جمہوری اصولوں کی نفی ہے؟۔ مجھے وہ وقت یاد آرہا ہے جب آپکی حکومت تھی مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا جسکو آپ مولانا ڈیزل کے نام سے پکارتے تھے اسوقت مولانا فضل الرحمن کے آنسو دیکھ کر کئی لوگوں نے انہیں اسوقت کمزور سمجھا۔ تمسخر کے طوفان اٹھے، اور ہر جگہ ہنسی اڑائی گئی۔ لیکن مولانا کی آنکھیں کچھ اور کہہ رہی تھیں۔ وہ نم ضرور تھیں، مگر ان آنکھوں میں ایک دوراندیشی تھی، ایک حکمت تھی۔ انہوں نے وہ قدم اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ وہ ہار گئے تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بچانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ حالات کی ہوا کس طرف جا رہی ہے۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر، انہوں نے اپنے کارکنان کو محفوظ رکھنے کو ترجیح دی۔

میری یاداشتوں کے پردے میں اب آصف علی زرداری کا چہرہ بھی ابھر رہا ہے  زرداری نے اگر بیچ کی راہ چنی تو اسکی کوئی وجہ تھی!  میں  نے خود سے پوچھا کہ یہ تو وہی زرداری تھے جنہیں لوگ سیاست کے مختلف رنگ میں دیکھتے ہیں، مگر ان کے ہر فیصلے کے پیچھے ایک گہری حکمت ہوتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ سیاست کا کھیل شطرنج کی بساط جیسا ہے، اور کبھی کبھار، اپنے مہروں کو بچانے کے لیے پیچھے ہٹنا ضروری ہوتا ہے اور یہ قربانی وقتی ہوتی ہے مگر اس کے اثرات طویل المدتی ہوتے ہیں۔

اور میاں نواز شریف وہ جو کل اتنے خاموش تھے کھوئے کھوئے رہتے تھے وہ یوں ہی نہیں تھے یقیننا ان کی خاموشی کے پیچھے انکی اہلیہ کلثوم بی بی کے آخری لمحات کی دوری کا درد تھا، وہ لمحات جب وہ اپنی شریک حیات کے علاج کیلئے لندن آئے تو آپکے لوگوں نے اسکے خلاف جلوس نکالے ہتک آمیزی کی انکی فیملی کی ذاتی زندگیوں  میں مداخلت کی اور انکو جھوٹا قرار دیا کہ انکی اہلیہ بیماری کا ڈرامہ کررہی ہیں اور پھر کیا ہوا کلثوم نواز کو اپنی سچائی ثابت کرنے کیلئے بلاآخر مرنا پڑا  جبکہ نواز شریف ان  آخری لمحات میں اپنی اہلیہ کے پاس بھی نہ جاسکے آپ نے انکو اسکی اجازت ہی نہ دی اور انکو مسلسل قید میں رکھا وہ اپنی اہلیہ کو مرتے وقت الوداع بھی نہ کہہ سکے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ درد کسی کی بھی روح کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ میاں صاحب نے یہ دکھ دل میں سنبھالے رکھا، اور شاید اسی لیے ان کی آنکھوں میں وہ گہرائی ہے، جو الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔ کیا آپ وہ وقت بھول گئے جب آپ نے سیاست کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کردیا تھا،  مولانا فضل الرحمن سمیت سب سیاستدانوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، بلاول بھٹو کی کم عمری پر تنقید کی گئی، غیراخلاقی اور بدتمیزی کا بازار گرم کیا گیا ! کیا یہ سیاست تھی یا ایک جذباتی جنگ؟

اب میں کچھ اور پیچھے اپنی یادداشتوں کے کاغذات کے ڈھیر میں کھویا ہوا ہوں، 1977  کے ماضی کے بھیدوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں یہ وہ وقت تھا جب بھٹو کی حکومت طاقت میں تھی،” میں نے خود سے کہا، “اور اس وقت اشٹیبلشمنٹ بھٹو  سے ناراض ہوچکی تھی کیونکہ بھٹو اسکو اپنی کتھ پتلی بنانا چاہتے تھے وہ حقیقی جمہوریت لانا چاہتے تھے، مگر  اقتدار کی اس لڑائی میں اشٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھوں جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنی کٹھ پتلی بنا لیا تمام جماعتیں ایک تحریک کا حصہ بن گئیں، اور اشٹیبلشمنٹ نے ان کا سہارا لیتے ہوئے بھٹو کو میدان سیاست سے ہی نہیں زندگی سے بھی باہر کر دیا۔ یہ سوچتے ہوئے میری  آنکھوں میں افسوس کی ایک جھلک نمودار ہوگئی ۔ لیکن تاریخ رکتی کہاں ہے؟ وہی اشٹیبلشمنٹ جو ایک وقت میں کسی کی طاقت بن جاتی ہے، اگلے ہی لمحے اسے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ اب میرے خیالات کی پرواز 1990 کی دہائی میں چلی گئی ہے وہی سیاست، وہی کھیل، مگر کردار تبدیل ہوگئے  نواز شریف اور بے نظیر بھٹو، دونوں اقتدار کی جنگ میں اشٹیبلشمنٹ کے آلۂ کار بنے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا جیسے دو بہادر سپاہیوں کو میدان جنگ میں اتار دیا گیا ہو، جنہیں معلوم نہ ہو کہ ان کی شکست درحقیقت کسی اور کے ہاتھ میں ہے اسوقت ایک فرق تھا، میں نے سوچتے ہوئے قلم کو اپنے انگلیوں میں گھمایا، “آخر کار، نواز شریف اور بے نظیر نے اپنے تلخ تجربات سے کچھ سبق سیکھا ؟ جی ہاں میرے ذہن نے فوراً جواب دیا جی ہاں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی کو ترک کر کے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔ یہ ان کا ایک ایسا معاہدہ تھا جس نے اشٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ پھر بے نظیر اس جنگ میں زندگی کی بازی ہارگئیں، اشٹیبلشمنٹ کو اقتدار پیپلز پارٹی کو دینا پڑا مگر پھر ایک بار نواز شریف اشٹیبلشمینٹ کے ہمنوا بن گئے۔

کمرے کی خاموشی میں اب  میری آواز جیسے  گونجنے لگی جیسے میں اپنے آپ سے سوال کر رہا ہوں “کیا ہم نے ان غلطیوں سے کچھ سیکھا؟ کیا ہم نے تاریخ کی ان غلطیوں کو پھر سے دہرایا ؟”

یہ سوال واقعی میرے دل کو چُھوگیا۔“ میں  نے قلم کو کاغذ پر رکھتے ہوئے لکھا،”“تحریک انصاف “بھی اسی صورتحال کا شکار ہے۔ وہی اشٹیبلشمنٹ جس نے پہلے اسے تقویت بخشی، وہ اب اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔

میں نے کمرے میں جلے لیمپ کی دھیمی روشنی میں اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور سوچا کہ سب کو سب کچھ سمجھ آتا ہے میرا دل بھی دھیرے سے بولا۔ ہاں، یہ سیاستدان بھی انسان ہیں۔ ان کے فیصلے، ان کے راستے، ان کے پیچھے کی کہانیاں سب کچھ گہری سوچ اور دل کے درد سے بھری ہوئی ہیں۔ برداشت کرنا پڑتا ہے، کمپرومائز کرنا پڑتا ہے، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی قوم کے لیے، اپنے بچوں کے لیے آپکا وقت تھا جب اشٹیبلشمنٹ نے آپ کے حق میں ہوا کا رخ موڑا۔ عمران خان کے جلسے، دھرنے، اور بیانات جب طاقتور بن گئے وہ طاقت جس کا سہارا آپ نے لیا اس نے آپکو ایک لمحے کے لیے ناقابل شکست بنا دیا۔ لیکن شاید آپ بھول گئے کہ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی اور اب؟ آج، جب وہی اشٹیبلشمنٹ آپ کے خلاف کھڑی ہوئی ہے، تو آپ انہیں آئین شکن اور غیر جمہوری کہہ رہے ہیں۔ لیکن کل تک آپ ان کے ہر فیصلے کو درست قرار دیتے تھے۔ یہ تضاد کیا کہتا ہے؟ یہ وقت ہے کہ آپ ان غلطیوں کو پہچانیں ان پر غور کریں یہ وقت ہے کہ آپ ماضی کی اس کہانی کو سمجھیں، ان غلطیوں کو پہچانیں، اور اپنی سمت درست کریں۔ ماضی کا ایک دریچہ کھولیے دیکھئے آج، وہی مسائل آپ کے سامنے کھڑے ہیں آج، آپ خود ان حالات کا شکار ہیں جو کل آپ نے دوسروں کے لیے پیدا کیے تھے۔ آپ کے رہنما گرفتار ہیں، آپ کے کارکن بکھر رہے ہیں، اور آپ کا بیانیہ کمزور ہو رہا ہے۔ اشٹیبلشمنٹ کی حمایت پر انحصار نے آپ کی جڑیں کمزور کر دی ہیں کل تک، جب آپ کے مخالفین کو “بکا ہوا” کہا جاتا تھا، آج آپ خود انہی الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کل تک، جب آپ طاقتور تھے، تو آپ نے جمہوریت کے اصولوں کو کمزور کیا۔ آج آپ جمہوریت کی بحالی کی بات کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ واقعی اس کے لیے مخلص ہیں؟

سیاست ہمیشہ ایک لچکدار دھاگے کی مانند ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ حالات کے تحت بدلتی رہتی ہے۔ جب جذبات، انتقام، اور موقع پرستی اس دھاگے کو گھیرا ڈال لیتے ہیں، تو کبھی یہ قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔

یاد رکھیں، سیاست جمہوری عمل کا نام ہے لیکن جب آپ اس میں اپنی خواہشات کو فوقیت دیتے ہیں تو اس کا رخ بدل جاتا ہے وہی حمایت جسے کبھی آپ اپنی طاقت سمجھتے تھے آج آپ کے خلاف ہتھیار بن چکی ہے یہ حقیقت ماضی کے آئینے میں صاف جھلکتی ہے ایک وقت تھا جب آپ نے اصولوں کے بجائے موقع پرستی کو ترجیح دی اور آج وہی سیاست آپ کے سامنے پیچیدہ سوالات کی صورت میں کھڑی ہے۔

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا تھا کہ طاقت کا راستہ ہمیشہ عوام سے ہوتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی یہ جانا کہ وہ حمایت جو آپ کو وقتی طور پر فائدہ دیتی ہے، جب وہ پلٹتی ہے، تو آپ کے لیے کتنی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے؟

اب وقت آ چکا ہے کہ آپ ان غلطیوں کو پہچانیں اور اپنی سیاست کو اصولوں کی بنیاد پر استوار کریں اب  وقت ہے کہ جب آپ اپنے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں، وہ راستہ جو صرف عوام کی خدمت کے لیے ہو نہ کہ طاقت کے عارضی دریا میں غوطہ زنی کیلئے۔یہ وقت ہے کہ آپ ماضی کے آئینے میں جھانکیں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں، اور ایک نئے راستے کا انتخاب کریں اپنی سیاست کو اصولوں پر استوار کریں اسکو جذبات اور انتقام سے آزاد کریں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں اشٹیبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کریں۔مگر آپ اب بھی مذاکرات اشٹیبلیشمینٹ سے ہی کرنا چائتے ہیں ؟  آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر ایک نئی سیاست کی بنیاد رکھیں۔ یاد رکھیں، طاقت عوام میں ہے، اور عوام کے دل جیتنے کے لیے سچائی، اصول، اور دیانتداری ضروری ہے میں اپنے قلم سے لکھ رہا ہوں ۔ شاید یہ وہی خط ہے  جو آپ پر مستقبل کے دروازے کھول سکتا ہے۔ سوال یہ تھا: کیا آپ ماضی سے سبق لیں گے؟ کیا آپ اس روشنی کو اپنائیں گے جو اندھیروں کو چیر کر آپ کے سامنے کھڑی ہے؟

میں لیمپ میں موجود  روشنی کی لو کو دیکھ رہا ہوں جیسے کہ شاید میرے  سوالوں کے جواب اسی روشنی میں ہی چھپے ہوئے  ہیں کبھی کبھی ہار کا مطلب جیت ہوتا ہے پیچھے ہٹنا بھی ایک طرح کی فتح ہے بشرطیکہ آپ جانتے ہوں کہ کب اور کیوں ؟  میں  نے تھوڑی دیر کیلیئے لمبا سانس کھینچا اپنی آنکھیں بند کیں اور میں رات کی گہری خاموشی میں ڈوب گیا لیکن میرے دل میں ماضی کی وہ بازگشت زندہ ہے، جو مجھے آگے کے فیصلے کرنے کی ہمت دے رہی ہے ۔ اسوقت کمرے کی ہوا میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی ہے۔ میں نے قلم کو اٹھایا اور ایک آخری جملہ لکھا:

“تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے” ۔ اور وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو آپ کے سیاسی مخالفین نے ماضی میں کیں۔ وہی کھیل وہی کردار، صرف چہرے بدل جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے ماضی سے کچھ نہ سیکھا تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اور ہم ہمیشہ کے لیے ایک دائرے میں ہی گھومتے رہینگے

آج، آپ کے رہنما اور کارکنان ایک ایسے جال میں پھنس چکے ہیں جو ماضی میں آپ خود دوسروں کے لیے بُنا کرتے تھے۔ اشٹیبلشمنٹ کی حمایت نے آپ کو وقتی طاقت تو دی، لیکن اس نے آپ کی جڑیں کمزور کر دی ہیں۔آج آپ خود اس سیاسی ماحول کا شکار ہیں جو آپ نے تیار کیا تھا۔ کل تک آپ کے مخالفین کو غدار کہا جاتا تھا، آج آپ خود انہی الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔آپ نے اشٹیبلشمنٹ کو اپنی طاقت سمجھا، لیکن جب اس نے اپنا رخ بدلا، تو آپ بے دست و پا ہو گئے۔ یہ ایک سبق ہے کہ طاقت ہمیشہ عوام سے آتی ہے، کسی اور کے کندھے پر سوار ہوکرآپ کبھی بھی پائیدار سیاست نہیں کرسکتے

“میرے عزیز دوستو”   

یہ وقت ہے ماضی کی زنجیروں کو توڑنے اور اصولوں پر مبنی سیاست کے آغاز کرنے کا۔ جذبات اور انتقام کی جگہ دلیل اور مکالمے کو اپنائیں، اور جمہوریت، آئین، اور سول قیادت کی بالادستی کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ایسی سیاست کی بنیاد رکھیں جو عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لیئے ہو۔ یہی موقع ہے کہ آپ اپنی سمت درست کریں اور ایک روشن مستقبل کی جانب پہلا قدم بڑھائیں۔

آپ کا خیرخواہ،

ایک مخلص ہم وطن

چراغ کی روشنی مدھم ہوتی گئی، اور میں  اپنے کاغذات کے درمیان بیٹھا، ماضی کے آئینے میں حال کا عکس دیکھتا رہا۔


اپنا تبصرہ لکھیں