پاکستان نے خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ہندو مندر کو نذر آتش کرنے کے بارے میں بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے ہفتہ کے روز کیے گئے ‘غیرضروری دعووں’ کو مسترد کردیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ “یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہندوستانی حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کہیں تشویش ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ وہ خود اقلیتوں کے حقوق کی مستقل سب سے زیادہ مستقل خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔
دفتر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اقلیتی برادری سے ایک ہی نوعیت کے واقعات رونما ہونے پر ہندوستان نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن سے سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے دی وائر کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ کو وزارت خارجہ کے ساتھ شیئر کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ وہ توقع کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان اپنی اقلیت برادریوں کی حفاظت، سلامتی اور فلاح و بہبود کا خیال رکھے۔
اسی طرح کی ایک رپورٹ خبر رساں ادارے دی ہندو نے بھی شائع کی تھی۔
آج جاری کردہ ایک بیان میں دفتر خارجہ نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ سے لے کر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) تک، 2002 میں گجرات کے قتل عام سے لے کر، دہلی میں فسادات تک، 1992 میں بابری مسجد کے قابل مذمت انہدام سے 2020 میں ہندوستانی عدالت سے تمام ملزموں کی بریت، مسلمانوں پر کورونا وارئس کے پھیلاؤ کے الزامات عائد کرنے سے بین المذآہب شادی پر پابندی، گائے کی نگرانی اور ہجوم کے ہاتھوں قتل سے لے کر مغربی بنگال کے مسلمانوں کو ‘دیمک’ قرار دے کر خلیج بنگال میں پھینکنے کی دھمکی تک، کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل سے لے کر ‘جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ’ کی تقسیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی صریح کوششوں تک، آر ایس ایس-بی جے پی حکومت کا خاص طور پر مسلمانوں میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ریکارڈ مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے امتیازی سلوک کو فروغ دینے والے ملک کی حیثیت سے ہندوستان کسی اور جگہ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے مابین واضح فرق موجود ہے، اس حقیقت کی بنیاد یہ ہے کرک واقعے کے ملزموں کو فوراً گرفتار کرلیا گیا، مندر کی بحالی کے احکامات جاری کیے گئے، عدلیہ نے فوری اعلیٰ سطح کا نوٹس لیا اور سینئر سیاسی قیادت نے واقعے کی مذمت کی۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ریاستی سرپرستی میں متعصب ظالمانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے، ہندوستانی قیادت ابھی تک فروری 2020 میں دہلی کے قتل عام کے مرتکب افراد کی مذمت نہیں کی، ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا تو دور کی بات ہے۔
دفتر خارجہ ہندوستانی دارالحکومت میں ہونے والے پرتشدد واقعے کا ذکر کر رہا تھا جس نے کم از کم 50 افراد کی جانیں لی تھیں۔
بیان میں اخذ کیا گیا کہ ان ناقابل تردید حقائق کے پیش نظر ہندوستانی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں وہ کہیں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے تشویش ظاہر کرنے کے بجائے اپنا گھر درست کرے۔