نئی دہلی: فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے موبائل فونز کی ہیکنگ کا شکار ہونے والے بھارتی صحافیوں اور وکلا کے گروہ نے اپنے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاسوسی کرنے والی اسرائیلی کمپنی کے ساتھ اپنے تعلقات منظر عام پر لائے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کے این ایس او گروپ کے خلاف مقدمہ کیا تھا جس میں مذکورہ گروپ پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے دنیا بھر میں سرکاری اور فوجی افسران، صحافیوں، سیاسی مخالفین اور سفارتکاروں سمیت 1400 صارفین کے فون کی سیکیورٹی توڑنے میں اپنے کلائنٹس کی مدد کی۔
تاہم این ایس او نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ ٹیکنالوجی حکومتوں کو انسداد دہشت گردی کے لیے فروخت کرتے ہیں۔
یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ بھارت 40 کروڑ صارفین کے ساتھ دنیا میں واٹس ایپ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
ہیکنگ سے متاثر ہونے والے 19 افراد کے گروپ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ ’حکومت واضح کرے کہ کیا اس نے ان کی نگرانی کی؟‘۔
خط میں تحریر کیا گیا کہ ’یہ بات تشویشناک کے بھارت کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ اس قسم کی سائبر نگرانی پر خرچ کیا گیا‘، مذکورہ بھارتی گروہ میں صحافی، وکلا، دانشور، لکھاری اور سماجی کارکنان شامل ہیں جنہوں نے خط لکھا گیا۔
اس معاملے سے باخبر 2 ذرائع نے بتایا کہ این ایس او کے پیگاسس اسپائی ویئر سے مبینہ طور پر متاثر ہونے والے 121 افراد کا تعلق بھارت سے تھا۔
واٹس ایپ انتظامیہ کے مطابق پیگاسس نے ویڈیو کالنگ فیچر میں موجود خامی کا غلط استعمال کیا اور اس کے ذریعے صارف کے موبائل فون کی سیکیورٹی توڑی جس میں ایک دفعہ داخل ہوجانے کے بعد فون کے ڈیٹا حتیٰ کے مائیکروفون اور کیمرہ تک لامحدود رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔
بھارتی صارفین کے گروہ کا کہنا تھا کہ اسپائی ویئر سے نہ صرف ان کی سیکیورٹی داؤ پر لگی بلکہ ان کے دوست احباب، اہلِ خانہ، کلائنٹس اور ذرائع بھی متاثر ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بھارتی حکومت سے جواب مانگتے ہیں کہ آیا وہ اپنی وزارتوں، ایجنسیز یا کسی اور سرکاری محکمے کے این ایس او گروپ یا کسی کانٹریکٹر کے ساتھ کسی ایسے معاہدے سے واقف تھی جس میں بھارت میں پیگاسس یا اس طرح کا کوئی اور میل ویئر داخل کیا جانا تھا؟
دوسری جانب بھارتی حکومت کی جانب سے اسپائی ویئر استعمال کرنے کی نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید سامنے آئی۔
تاہم بھارتی حکومت نے گزشتہ ہفتے واٹس ایپ سے سیکیورٹی بریچ کی نوعیت کی وضاحت مانگی تھی اور صارفین کی پرائیویسی کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدمات کا پوچھا تھا۔