بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان


بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کردیا۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے صدر نے کہاکہ ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے لیکن اب تک جو بجٹ آئے ہیں ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی کی جھلک نظر آئی ہے۔

‘یہ بجٹ ممبرا دوست ہو سکتا ہے، وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیوروکریسی دوست ہو سکتا ہے، عکسریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آںے کے امکانات ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے موجودہ بجٹ سے فائدہ کسے پہنچ رہا ہے ، کیا غریب کو فائدہ ملے گا، غریبوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، کیا انہی بجٹ سے عوام کی مہنگائی سے کمر چور چور نہیں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم لوگوں کو روزگار دیں گے، صنعتیں روز بروز بند ہوتی جا رہی ہیں، آپ کی سب سے بڑی صنعت جس کو اسٹیل مل کہا جاتا تھا، آج اس کے مزدور سراپا احتجاج ہیں، اس کی نجکاری کی جا رہی ہے، ان لوگوں کو بیروزگار کرایا جا رہا ہے، اس حلقے کے نمائندے یہاں احتجاج کرتے ہیں لیکن یہاں کوئی سننے والا نہیں ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے صدر نے مزید کہا کہ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، جس دن بجٹ منظور کیا جاتا ہے تو صف بھری ہوتی ہے لیکن جب تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں، جن کو عوام کا درد ہو، عوام کی مجبوریوں اور مصیبتوں کا احساس ہو۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں ننگے پاؤں ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سیاسی جدوجہد کی ہے، جنہوں نے اپنی، اپنے بچوں اور اپنی قوم کی جانیں گنوائی ہیں ان کو یہ احساس ہو گا کہ بجٹ کی اہمیت کیا ہے اور بجٹ سے کیا لینا چاہیے اور عوام کو کیا دینا چاہیے۔

سردار ختر مینگل نے کہا کہ میں اپنی جماعت کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ طور پر اعلان کرتا ہوں، ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔

انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اراکین اسمبلی اپنے حلقہ انتخاب سے منتخب ہو کر آئے ہیں، لوگوں کا احساس ہے ان میں اور وہ لوگوں کے احساس کو آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں، مہربانی کر کے اگر آپ ان کی تجاویز کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم نوٹ تو کر لیں۔

‘اگر آپ لوگوں کے پاس کاغذ کے ٹکڑے نہیں ہیں، قلم نہیں ہیں، ہم سب فراہم کریں گے، چندہ کریں گے، ہم مولانا صاحب سے کہیں گے تمام مسجدوں میں اعلان کردیں کہ کاغذ اور چندے اکٹھنے کر کے آپ لوگ ان سے نوٹ فرمائیں’۔

انہون نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو مرد الزام ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہو گا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہو گا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اسے ورثے کے چکر میں کھینچتے لے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا۔

اختر مینگل نے مزید کہا کہ آپ یہ کہیں کہ میں نے کیا کیا ہے، میں کیا کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے تو شک ہے کہ اگلا بجٹ کہیں ہم کورونا یا ٹڈی دل کے حوالے تو نہیں کردیں گے، کیونکہ یہ کہیں گے کہ یہ جو بجٹ ہم دینے جا رہے ہیں اس کی ذمے دار کورونا یا ٹڈی دل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی، یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جا رہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے۔

یاد رہے کہ اگست 2018 میں بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت سے اتحاد کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔

اس یادداشت کے تحت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے 6فیصد کوٹا پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کے بحران کے بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل نے صرف مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا تھا جبکہ صوبائی سطح پر پارٹی کا جمعیت علمائے اسلام(فضل) سے اتحاد جاری رہا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں