برطانوی اخبار پاکستانی نژاد شخص کو 1 لاکھ 80 ہزار پاؤنڈ جرمانہ ادا کرنے پر رضامند


برطانوی اخبار ‘دی میل آن سنڈے’ نے سابق ٹیکسی لائسنس فراہم کرنے والے افسر پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے گروہ کی سہولت کاری کرنے کا اپنے آرٹیکل میں الزام عائد کرنے کے 3 سال بعد 1 لاکھ 80 ہزار یورو ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیا۔

2016 میں برطانیہ کی عدالت نے 10 افراد پر روچ ڈیل میں ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ جنسی جرائم کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔

تحقیقات کے بعد معلوم ہوا تھا کہ پاکستانی، بنگلہ دیشی اور افغانی نژاد افراد پر مشتمل یہ گروہ درجنوں لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرچکا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان لڑکیوں کو تحائف دیتے تھے اور انہیں شراب اور نشہ آور چیز کھلانے کے بعد ان کے ساتھ جسنی زیادتی کیا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے بچوں سے جنسی زیادتی کا مجرم برطانیہ کے حوالے کردیا

2017 میں ‘دی میل آن سنڈے’ نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی نژاد اقبال ان ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے اس وقت ‘فکسر’ کے طور پر کام کر رہا تھا۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق کیس کی کارروائی کے بعد میل آن سنڈے نے اعتراف کیا کہ اقبال اس ٹیم کا حصہ تھا جو ٹیکسی ڈرائیوروں کے لائنسنس دینے کو دیکھتا تھا۔

اقبال نے میل آن سنڈے پر ان کے رنگ کی وجہ سے اس جرم میں شامل کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اس آرٹیکل کی وجہ سے ان کی پوری دنیا تباہ ہوگئی اور وہ اپنی نوکری کھو چکے ہیں، اپنے بچوں کو نہیں ڈھونڈ پارہے اور ڈپریشن سے بچانے والی دوائیں کھانے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں دوسری نوکری بھی نہیں ڈھونڈ سکتا جبکہ جرم میں ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی قانونی شواہد بھی موجود نہیں، صرف میڈیا کی رپورٹ پر بتایا گیا تھا کہ میں نے گروہ کی سہولت کاری کی’۔

دی گارجین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا رنگ دیکھ کر مجھے اس گروہ کے ساتھ جوڑا گیا اور پھر سب ختم ہوگیا’۔

یہ بھی پڑھیں: پاک- برطانیہ مشترکہ آپریشن، بچوں سے زیادتی کا مجرم گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے جان کا خطرہ ہے، میں نے اپنے گھر کے چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر رکھے ہیں کیونکہ سر پھرے اکثر آجاتے ہیں، مجھے سوشل میڈیا سے دور ہونا پڑا’۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا جہاں زیر تعلیم ہے استے وہاں بھی اپنے ہم جماعتوں ان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ 2018 میں برطانوی عدالت نے شراب اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کے بعد 13 سال تک کی کم عمر لڑکیوں کے جنسی استحصال کرنے کے الزام میں 3 پاکستانیوں سے ان کی برطانوی شہریت لیتے ہوئے انہیں پاکستان ڈپورٹ کردیا تھا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں حکومت پاکستان نے ٹیکسی چلانے والے برطانوی گروہ کے ایک مجرم کو برطانوی حکام کے حوالے کردیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں