کراچی: حال ہی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی و پیٹرولیم کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے تابش گوہر نے کہا ہے کہ بجلی کے صارفین جولائی 2022 سے اپنی پسند کے کسی بھی پاور پروڈیوسر سے مسابقتی بنیاد پر بجلی خریدنے کا آپشن حاصل کریں گے۔
سی ایف اے سوسائٹی پاکستان کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے تابش گوہر نے کہا کہ مسابقتی تجارت کا دو طرفہ معاہدے کا پہلا مرحلہ رواں مالی سال کے اختتام تک آپریشنل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘توانائی کے شعبے کی (موجودہ) حالت میں رہنے کی ایک وجہ واحد سپلائر ماڈل ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘متعدد خریداروں کے نظام کے نفاذ کے بعد حکومت کو امید ہے کہ کل بجلی کا 20 فیصد تک استعمال کرنے والے خریدار اپنے ‘سپلائر کے انتخاب’ تک رسائی حاصل کریں گے۔
واضح رہے کہ وہیلنگ کا تصور جو بجلی کی ترسیل کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنی کا نظام استعمال کرتا ہے، پاکستان میں کئی سالوں سے موجود ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے وہیلنگ آف الیکٹرک پاور ریگولیشن 2016 کے مطابق بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں بلک صارفین کو اپنی بجلی فروخت کرنے کی اجازت ہے۔
تاہم دو وجوہات کی وجہ سے یہ مشق ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے، معیاری لاگت اور کراس سبسڈی۔
تابش گوہر کا کہنا تھا کہ ‘آپ کے پاس موجودہ تقسیم کار کمپنی کی معیاری قیمت ہے، آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے اگر اس کو سبسڈی نہیں دی جارہی ہے تو، اس بات کا قوی امکان ہے کہ نئے آنے والے سپلائر سستی قیمت کے ساتھ آئیں گے اور تمام اچھے صارفین، خصوصاً صنعتی صارفین حاصل کرلیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نسبتاً ناکارہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں زیادہ نقصانات کے ساتھ صرف ان صارفین کی خدمت کے لیے رہ جائیں گی جو بہتر سپلائر کی جانب منتقل نہیں ہوسکتے۔
اس کے نتیجے میں پوری مشق صرف پاور سیکٹر کی موجودہ پریشانیوں میں اضافہ کرے گی۔
وزارت خزانہ کو بالآخر اپنے بہترین صارفین کو برقرار رکھنے سے قاصر موجودہ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ناقص کیش فلو کے لیے مداخلت کرنی پڑے گی۔
وہیلنگ کے تصور کو مقبول بنانے کی اپنی پہلی کوشش میں نیپرا نے ایک روپے سے 1.5 روپے فی یونٹ کا ویلنگ چارج پیش کیا۔
چند تقسیم کار کمپنیوں نے اسے حد سے کم سمجھا اور اس اقدام کے خلاف عدالت میں گئے۔
تابش گوہر کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں وہ جس نمبر کی تلاش کر رہے ہیں وہ 6 روپے (فی یونٹ) ہے، یہ میرے لیے نامکمل ایجنڈے میں سے ایک تھا جب میں حکومت میں تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ایک پاور کمپنی جو ملک میں کہیں بھی اپنے ایک میگاواٹ اور اس سے زیادہ کے بلک صارفین کو تلاش کرتی ہے وہ اس مخصوص صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کو نیچے لائے گی اور عام طور پر معیشت کو بھی فائدہ پہنچائے گی۔
سیاسی مسائل
سابق معاون خصوصی نے کہا کہ ‘کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں پالیسی ساز نہ جانتےہوں، معاملات کی خرابی بنیادی طور پر ‘سیاسی ارادوں کی کمی’ کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ایک وجہ تھی کہ میں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں آگے بڑھوں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘اگلے ڈیڑھ سال تک میں سمجھتا ہوں کہ اصلاحات سے زیادہ سیاست ہو گی’۔