وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت کو دیوار سے نہ لگائے، حکومت اپوزیشن کو دیوار سے نہیں لگائے گی، تاہم یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہمیں بلیک میل کریں کہ ہمارے مقدمات پر ریلیف دیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ آپ لوگوں نے پڑسوں دیکھا کہ ایک پھس پسی کانفرنس ہوئی، جہاں بلاول بھٹو اور مریم نواز نے ماسک پہنے ہوئے تھے تاہم اس کے باوجود ان کی آنکھوں سے مایوسی جھلک رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے مایوسی کی تصویر دکھانی ہو کہ مایوسی کیا لگتی ہوگی تو اس وقت فضل الرحمٰن کی تصویر دکھا سکتے ہیں، پی ڈی ایم کی پوری قیادت اس وقت مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا جو رویہ ہے اور جو تمام ان کی کوششیں ہیں کہ انہیں عدالتوں سے ریلیف، این آر او مل جائے وہ ہو نہیں پارہا جس کی وجہ سے ان کی مایوسیوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نئی مقامتی حکومتوں کے نظام کو انقلاب کہتے ہوئے انہوں نے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مبارک باد دی، ساتھ ہی کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے پہلی مرتبہ صوبوں سے اختیارات اضلاع اور شہروں کو جائیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ اور کراچی میں بنیادی مسئلہ یہ چل رہا ہے کہ کراچی کو اس کا حصہ نہیں ملتا، 1600 ارب روپے سندھ میں دو برسوں میں گئے لیکن یہ پیسا کہاں اور کیسے خرچ ہوا اس کا پتا نہیں۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اگر سمجھتی ہے کہ گزشتہ انتخابات اگر ٹھیک نہیں ہوئے تو فضل الرحمٰن، مریم نواز سمیت پی ڈی ایم کی قیادت آئے اور انتخابات میں حصہ لے۔
پیپلزپارٹی کے اسلام آباد میں دھرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان کے اسلام آباد میں دھرنے کے لیے چھوٹا سا ٹینٹ چاہیے جو ہم لگوا دیں گے تاہم حقیقت یہ ہے پیپلزپارٹی اندرون سندھ کی جماعت بن گئی ہے اور جس طرح سے آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا وہ تو ضیا الحق نہ کرسکا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان میں پیپلزپارٹی کا کوئی ووٹ نہیں رہ گیا، یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو کی پارٹی کا یہ انجام ہوا ہے۔
انہوں نے کہا اسی طرح مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب کی جماعت ہے ان کا سندھ، بلوچستان میں کوئی ووٹ نہیں جبکہ جے یو آئی (ف) خیبرپختونخوا کے 4 اضلاع کی جماعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان سب کو چاہیے کہ یہ اتحاد کے بجائے آپس میں ضم ہوجائیں، فضل الرحمٰن کو پارٹی کا سربراہ بنا لیں اور بلاول بھٹو اور مریم اس جماعت میں شامل ہوجائیں اور نئی جماعت بنا لیں تاکہ ان کا کوئی قومی رنگ آئے جس کے بعد آکر یہ مقامی حکومتوں کا الیکشن لڑیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کہتی ہے کہ ہم مہنگائی کے خلاف نکلے ہیں، یعنی جن لوگوں کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے وہ ہمیں بتارہے ہیں کہ مہنگائی پر ہمارے ساتھ مل جائیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آپ 30، 30 سال اقتدار میں رہے ہیں، ابھی تک بلاول بھٹو، مریم نواز اور فضل الرحمٰن نے یہ نہیں بتایا کہ اگر وہ حکومت میں آگئے حالانکہ اس کا چانس نہیں ہے، تاہم پھر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حکومت میں آکر کیا مختلف کریں گے جو وہ 30 برسوں میں نہیں کرسکے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا نے کہا کہ عوام سے اگر پوچھیں کہ آپ اپنے بچوں کو زرداری، نواز شریف یا عمران خان بنانا چاہیں گے تو ہر ماں، باپ یہی کہیں گے کہ ہم اپنے بچے کو عمران خان بنانا چاہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس نہ کوئی پروگرام ہے نہ کوئی پلان ہے، روز آجاتے ہیں کبھی ایک بات پر تو کبھی دوسری بات پر، یہ لوگ پہلے انتخابات میں دھاندلی کا کہہ رہے تھے اب اسی پارلیمنٹ سے سینیٹ کے ووٹوں کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی پارلیمنٹ کے اسپیکر کی تحقیر کرتے ہیں اور اسی اسمبلی سے ووٹ مانگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ حکومت کو دیوار سے نہیں لگائیں، حکومت آپ کو دیوار سے نہیں لگائے گی، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہمیں بلیک میل کریں کہ ہمارے مقدمات پر ریلیف دیں، اس کے اوپر آپ ہمیں بلیک میل نہیں کریں، اس کے علاوہ ہر موضوع پر ہم آپ سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔
اس موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے رابطے رہتے ہیں، جو لوگ ملتے ہیں وہ پتا نہیں مریم نواز کو بتاتے بھی ہیں یا نہیں، مریم کا اپنی جماعت میں اتنا قد نہیں، مریم نواز کی بات کو ان کی جماعت میں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا تو باہر کون لے گا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارے کوشش ہے کہ سینیٹ انتخابات کی ووٹنگ اوپن کردیں تاکہ کوئی ووٹ بیچ نہ سکے اور تمام لوگ جو ووٹ دے رہے ہیں ان کا ووٹ سامنے ہوں، تاہم اپوزیشن خاص طور پر سندھ میں ان کا خیال ہے کہ یہ ووٹ خرید سکیں گے حالانکہ یہ ایسا نہیں کرسکیں کیونکہ حکومت کے پاس یہ کام کرنے کی زیادہ طاقت ہوتی ہے تاہم ہم ایسا نہیں کر رہے۔
پی ڈی ایم کے مستقبل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد کا مستقبل مایوسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے وہ نواز شریف کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے۔
دوران گفتگو سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ مدرسوں کے بچوں کی سیاست کے خلاف ہیں، پیپلزپارٹی تو لبرل سیاست کرتی ہے لیکن یہاں پر آکر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا سارا اتحاد یہ ہے کہ فضل الرحمٰن مدرسوں کے بچے لائیں گے جس کی بنیاد پر ہم اسلام آباد بند کرسکیں گے اور ان کے ساتھ باقی فرقہ وارانہ جماعتیں ان کے ساتھ مل جائیں گی اور ہم مذہبی کارڈ کھیل سکیں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم تمام فرقہ وارانہ جماعتوں کو ساتھ ملانا چاہتی ہے۔