امریکا کا فیس بک، ٹوئئر سے ایرانی رہنماؤں کے اکاؤنٹس معطل کرنے کا مطالبہ


امریکا کے محکمہ خارجہ نے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک تہران ملک میں انٹرنیٹ کی کوریج دوبارہ بحال نہیں کرتا اس وقت تک ایرانی حکومت کے رہنماؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو معطل کردیں۔

غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا نے کہا کہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر گیا لیکن انٹرنیٹ کی بندش ختم نہیں کی گئی۔

ایران کے لیے خصوصی امریکی نمائندے برائن ہک نے محکمہ خارجہ کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا کہ ’یہ ایک مکمل منافقانہ حکومت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے سوشل میڈیا کمپنیوں جیسے فیس بک اور انسٹاگرام اور ٹوئٹر سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک تہران اپنے ہی لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کی سروس بحال نہیں کرے اس وقت تک ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے اکاؤنٹ معطل کردیے جائیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے ایران کے مواصلات کے وزیر محمد جواد آذری جہرمی پر پابندیاں عائد کردی تھی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ کے ’وسیع پیمانے پر سنسرشپ‘ میں ان کا کردار تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج، ایک شہری جاں بحق

ایرانی حکومت کی جانب سے ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے غیر متوقع فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔

ایران کی حکومت نے کہا تھا کہ ابتدائی 60 لیٹر پر 50 فیصد اضافہ ہوگا اور ہر ماہ اس سے تجاوز پر 300 فیصد اضافہ ہوگا۔

تہران نے الزام لگایا تھا کہ مذکورہ مظاہروں کے پیچھے ایران مخالف تحریکیں اور مغربی ممالک کا ایجنڈا ہے۔

دوسری جانب ایران میں احتجاج سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ ‘مصدقہ اطلاعات کے مطابق 21 شہروں میں کم از کم 106 مظاہرین مارے جاچکے ہیں’۔

تنظیم نے مزید کہا تھا کہ ‘اموات کی اصل تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ رپورٹس میں ہلاکتوں کی تعداد 200 بتائی گئی ہے’۔

ایران کے لیے خصوصی امریکی نمائندے برائن ہک نے کہا کہ حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کردیا کیونکہ وہ ان تمام اموات اور مظالم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جو تہران نے ملک بھر کے ہزاروں مظاہرین پر ڈھائے ہیں۔

اے ایف پی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پر فیس بک اور انسٹاگرام نے فوری طور پر جواب نہیں دیا جبکہ ٹوئٹر نے کہا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ ایران کی حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے غیر متوقع فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔

ایران کی حکومت نے کہا تھا کہ ابتدائی 60 لیٹر پر 50 فیصد اضافہ ہوگا اور ہر ماہ اس سے تجاوز پر 300 فیصد اضافہ ہوگا۔

ایران میں احتجاج کا سلسلہ حکومت کے اس فیصلے کے بعد شروع ہوگیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی 60 لیٹر پر 50 فیصد اضافہ ہوگا اور ہر ماہ اس سے تجاوز پر 300 فیصد اضافہ ہوگا۔

پابندیوں سے متاثرہ ملک میں پمپ پر پیٹرول کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافے کے فیصلے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد، 15 نومبر کو ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

اگلے ہی دن حکومت نے پُرتشدد مظاہروں کی ویڈیو کے پھیلاؤ کو روکنے کے مقصد کے تحت ایرانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی پر سخت پابندی عائد کردی۔


اپنا تبصرہ لکھیں