اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے مسودے میں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے حق میں امن منصوبے کے تحت مغربی کنارے پر صیہونی آباد کاریوں کے الحاق کی مذمت کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا اور تیونس کی جانب سے کونسل اراکین کو دیے گئے مسودے پر امریکا ویٹو کا اختیار استعمال کرسکتا ہے تاہم اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے امن منصوبے پر ایک نظر مل سکتی ہے۔
سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ مسودے کی تحریر پر مذاکرات کا آغاز اس ہفتے کے آخر میں ہوگا اور فلسطینی صدر محمود عباس کونسل سے منصوبے کے بارے میں بات بھی کریں گے جو ممکنہ طور پر قرار داد پر ہونے والی ووٹنگ کے ہی دن ہوگا۔
مزید پڑھیں: او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا
قرار داد میں مقبوضہ فلسطینی سرحدوں کے الحاق کے غیر قانونی ہونے پر زور دیا گیا اور اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں کے الحاق کے حالیہ بیان کی مذمت کی گئی۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر کی جانب سے 3 سال کی مدت میں تیار کیے گئے منصوبے میں اسرائیلی حکام کی آباد کاریوں کا اعتراف کیا گیا اور فلسطینیوں سے ریاست کے لیے مشکل ترین شرائط عائد کی گئیں اور یروشلم کے مشرق میں مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں ان کا دارالحکومت ہوگا۔
جیرڈ کشنر اس منصوبے کے حوالے سے سلامتی کونسل میں سفیروں کو بریفنگ دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان
جہاں فلسطینیوں کی جانب سے اس منصوبے کو مسترد کردیا گیا ہے وہیں کئی عرب حکومتوں کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے رکے ہوئے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک آغاز فراہم کرنے کا موقع ہوگا۔
قرار داد میں مذاکرات کے لیے بین الاقوامی و خطے کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا گیا۔
امریکا کی جانب سے کونسل کی سطح پر ویٹو کیے جانے کے بعد فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کے 193 رکنی جنرل اسمبلی کے میں مسودے کی تحریر لے جانے کا موقع ملے گا جہاں ووٹ سے معلوم ہوسکے گا عالمی سطح پر ٹرمپ کا امن منصوبہ قبول کیا گیا ہے یا نہیں۔