سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کہا ہے کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی پاکستان کے لیے مسلسل خطرے کا باعث ہے۔
چیئرپرسن حنا ربانی کھر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کے اجلاس کے دوران سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے کمیٹی کو پاک افغان تعلقات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کئی دہشتگرد تنظیمیں بشمول داعش، ایسٹ ترکستان مومنٹ، کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان سے کارروائی کررہی ہیں، داسو میں چینی شہریوں پرحملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان سے کی گئی، افغان طالبان کے آنے کے بعد پاکستان مخالف کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کو ثبوت فراہم کیے گئے ہیں، پاکستان اس حوالے سے اپنے خدشات مسلسل افغانستان کے ساتھ اجاگر کررہا ہے ، 22 جولائی 2024 تک 6 لاکھ 64 ہزار غیر قانونی افغان شہری افغانستان واپس چلے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیورز بارڈر کے دونوں جانب مخصوص دستاویزات پر سفر کرتے ہیں، ٹرک ڈرائیورز کے لیے پالیسی ختم کی جارہی ہے، آگے ٹرک ڈرائیورز پاسپورٹ کے بغیر بارڈر کراس نہیں کریں گے۔
سائرس قاضی نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو دورے کی دعوت ملی ہے تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کسی بھی ریاست کا اہم ترین ادارہ ہے ، آپ کو دنیا میں فوج کے بغیر ریاستیں مل جائیں گی مگر وزارت خارجہ کے بغیر نہیں۔
انہوں نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ کا سالانہ بجٹ 49 ارب روپے ہے، ہمارے 2 ہیڈز ہیں، 48 فیصد ہیڈ کوارٹرز کے لیے اور 49 فیصد غیر ملکی مشنز کے لیے، جو 48 فیصد ہیڈ کوارٹر کو ملتا ہے اس میں سربراہان مملکت کے بیرونی دورے بھی شامل ہیں ، ہمارے فارن مشنز رواں سال 12.1 کروڑ ڈالرز پر چلیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اپنے سے 10 گنا بڑے ملک سے مقابلہ ہے، بھارتی وزارت خارجہ ہمارے سے 14 گنا زیادہ بجٹ کی حامل ہے ، بنگلہ دیش کا اور پاکستانی وزارت خارجہ کا بجٹ کم و بیش برابر ہے ، بنگلہ دیش کے بیرون ممالک 80 اور ہمارے 120 فارن مشنز ہیں۔
کیا ہماری خارجہ پالیسی خود کفیل ہے یا کسی اور ادارے کی بھی مداخلت ہے؟ اعجاز الحق
اس پر ممبر کمیٹی شائستہ پرویز ملک نے سیکریٹری سے دریافت کیا کہ غیر ملکی مشنز کی اب تک کیا کارکردگی رہی ہے؟ کیا کوئی تجارت میں بہتری لاسکے ہیں؟ ممبر اعجاز الحق نے سوال کیا کہ کیا ہماری فارن سروس اکیڈمی میں کوئی غیر ملکی سفارتکار بھی تربیت لینے آتے ہیں؟ افغانستان تو تواتر سے اپنے افسروں کو تربیت کے لیے بھارت بھجوا رہا ہے، ہماری سفارتی اور اسٹریٹجک چیزیں بہتری کی بجائے مزید خراب ہوتی جارہی ہیں، کیا ہماری خارجہ پالیسی خود کفیل ہے یا کسی اور ادارے کی بھی مداخلت ہے؟ اس کمیٹی میں جو سفارشات آئیں ان پر خارجہ امور تشکیل پائیں تو یقینا چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں۔
اس پر کمیٹی چیئر پرسن حنا ربانی کھر نے بتایا کہ اگر ضروت ہوئی تو اجلاس ان کیمرا بھی کیا جاسکتا ہے، اس قائمہ کمیٹی کو اہمیت دیں، تمام ارکان ذمہ داری سے یہاں بیٹھے ہیں۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ دفتر خارجہ کا کام پاکستان کی خودمختاری کا مظاہرہ کرنا ہے، بیرونی ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو فروغ دیا جاتا ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے اپنے دروازے کھلے رکھیں اور عوام سے عوام کے روابط کو فروغ دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویزہ فیس کی مد میں سالانہ 5.5 کروڑ ڈالرز پاکستان آتے تھے، دفتر خارجہ کو اس کا 20 فیصد ملتا تھا، وزارت خارجہ کو 1.1 کروڑ ڈالر پاکستانی روپے میں ملتے تھے، اب یہ ویزہ فیس ختم کر دی گئی ہے، دفتر خارجہ کی بیرون ممالک کچھ اپنی بہت اچھی پراپرٹیز ہیں۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ ہم کچھ ممالک میں کرایوں کے مد میں ہزاروں ڈالر ماہانہ ادا کرتے ہیں، اس پر سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ دہلی میں بیگم رانا لیاقت علی خان نے تحفے میں پراپرٹی دی تھی، نیویارک میں آغا خان نے ہمیں پراپرٹی تحفے میں دی تھی۔
سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھا، فروری 2024 کے انتخابات کے بعد امریکا نے پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، اسی سلسلے میں کئی اہم امریکی شخصیات نے پاکستان کا دورہ کیا ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی دسمبر 2023 میں امریکا کا دورہ کیا، امریکا پاکستان میں توانائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کررہا ہے۔
پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد سرینگر بس سروس کو معطل کیا گیا اور پاکستانی اشیا کی درآمد پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی، نئی دہلی اور اسلام آباد میں سفارتی مشن کو 50 فیصد کم کیا گیا، سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کا گزشتہ سال دورہ کیا تھا مگر دورے میں دو طرفہ تعلقات پر کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2021 کے بعد دونوں ممالک کی مشاورت کے بعد لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی آئی ہے، پاکستان نے بھارت کو 40 ہزار میٹرک ٹن گندم افغانستان برآمد کرنے کی اجازت دی ہے، یہ برآمدات پاکستان کے راستے افغانستان ہوتی ہیں۔
سائرس قاضی نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر بھارتی بیانات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، بھارت کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو ویزے جاری کرنے پر بھی پابندی ہے۔