اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر چائلڈ پورنوگرافک مواد پھیلانے کے الزام میں ایک شخص کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی۔
اس فیصلے کا اعلان ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیا۔
ملزم عرفان سرور نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ (پیکا) کے تحت گرفتاری کے بعد ضمانت طلب کی تھی۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق عرفان سرور نے بچوں کی فحش ویڈیوز/تصویروں کو اپ لوڈ/شیئر کرنے اور پھیلانے کے مقصد سے فیس بک اور واٹس ایپ گروپ بنائے یا چلائے تھے اور یہ بھی پایا گیا تھا کہ وہ ایک فیس بک گروپ کا ایڈمن بھی ہے۔
وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک حکام نے اطلاع دی ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک گروپ نابالغ بچوں کی فحش ویڈیوز/تصاویر کو عوامی طور پر منتقل، شیئر کرنے اور رکھنے کے لیے استعمال ہوئے تھے۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدلال کیا کہ اس کا مؤکل ایک ناخواندہ شخص ہے اور اسے مقدمے میں ملوث کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جرائم ممنوعہ شق کے تحت نہیں ہیں اور تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور درخواست گزار سے کوئی بازیابی نہیں ہوئی ہے۔
درخواست گزار گزشتہ دو ماہ سے جیل میں ہے اور اب پولیس کو تفتیش کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
وکیل نے کہا لہذا وہ گرفتاری کے بعد ضمانت منظور ہونے کا حقدار ہے۔
تاہم ریاست کے ایک قانونی افسر نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں۔
فرانزک رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے بچوں کی فحش تصاویر اپ لوڈ کرنے، شیئر کرنے اور پھیلانے کے واحد مقصد کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ گروپس بنائے ہیں۔
ملزم یو آر ایل والے جعلی پروفائل سے منسلک فیس بک گروپ کا ایڈمن پایا گیا ہے جیسا کہ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے۔
واٹس ایپ گروپ درخواست دہندہ/ملزم کے نام رجسٹرڈ موبائل فون نمبر پر بنایا گیا تھا، موبائل نمبر کی سم ملزم کے نام سے جاری کی گئی تھی۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ ‘یہ عالمی اصول نہیں ہے، ہر معاملے کو اپنے حقائق اور حالات کے ذریعے دیکھنا پڑتا ہے’۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اگر کوئی جرم سی آر پی سی کے سیکشن 497 (1) کی ممنوعہ شق کے تحت نہیں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح کا جرم قابل ضمانت ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چائلڈ پورنو گرافی کی تقسیم معاشرے کے لیے صریحا ناگوار، انتہائی اور گھناؤنی زیادتی ہے، ہمیں معاشرے اور اس کے بچوں میں اس کے دور رس نتائج کو معمول پر لانا اور نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بچوں پر پورنوگرافی کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات قابل ذکر ہیں’۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ بچوں پر فحش نگاری کا اثر ناقابل تصور ہے اور اس کا نتیجہ طویل المدتی ہے۔