آمدن سے زائد اثاثے کیس: چوہدری برادران کے خلاف تحقیقات 4 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم


لاہور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو چوہدری برادران کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات 4 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عالیہ میں جسٹس صداقت علی خان نے چوہدری برادران کی نیب انکوائریز اور چیرمین نیب کے اختیارات کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی جس میں ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور شہزاد سلیم جبکہ چوہدری برادران کی جانب سے ان کے وکیل ایڈوکیٹ امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس صداقت علی خان نے استفسار کیا کہ درخواستگزاروں پر الزامات کیا ہیں، اس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ آمدن سے زائد اثاثوں اور غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات ہیں۔

ڈی جی نیب لاہور نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے چوہدری برادران کے خلاف غیر قانونی بھرتیوں کا کیس بند کر دیا ہے، چوہدری برادران کے خلاف صرف آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نیب کے پاس زیر تفتیش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2000 میں گجرات کے رہائشی نے چوہدری برادران کے خلاف شکایت درج کرائی تھی جس پر اس وقت کے چیرمین نیب نے اینٹی کرپشن کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 میں نیب لاہور نے چیئرمین نیب کو چوہدری برادران کے کیس کے بارے خط لکھا اور 2014 میں ہائی لیول کمیٹی نے دو ماہ میں اس کیس کو مکمل کرنے کا کہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ2017 میں اس کیس پر دوبارہ کام ہوا اور چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کو طلب کیا گیا اور چوہدری برادران کو اثاثوں سے متعلق پرفارما دیا گیا۔

ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ ‘ہم چوہدری برادران کے خلاف تحقیقات چھ ہفتوں میں مکمل کر لیں گے’۔

جسٹس صداقت علی کا کہنا تھا کہ ‘اگر ایک بندہ ٹیکس دے رہا ہے تمام اثاثے ڈکلییر ہیں پھر آپ کیسے انوسٹی گیشن شروع کرتے ہیں’۔

عدالت نے ڈی جی نیب سے سوال کیا کہ ‘آپکے کتنے اثاثے ہیں؟’، اس پر ڈی جی نیب نے بتایا کہ میرے 4 کروڑ کے اثاثے ہیں۔

عدالت نے سوال کیا کہ ‘آپ جب لیفٹیننٹ تھے اس وقت آپ کی تنخواہ کتنی تھی جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ ‘میرے پاس اس وقت ریکارڈ نہیں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اب نیب سے 5 لاکھ تنخواہ لے رہا ہوں’۔

جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ ‘کسی وقت تسلی سے آپ سے آپ کے بارے میں پوچھیں گے’۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو چار ہفتوں میں چوہدری برادران کی آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

چوہدری برادران کے خلاف تحقیقات

خیال رہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف 2 ارب 42 کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد رقم کی کرپشن کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ چوہدری برادران کے خلاف 4 جنوری 2000 کو تفتیش شروع کی گئی تھی جبکہ جولائی 2015 میں نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں زیر التوا 179 مقدمات پیش کیے تھے جن میں ایک یہ مقدمہ بھی تھا۔

اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین پر 2000 میں 28 پلاٹس کی غیر قانونی خریداری پر اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین نیب میجر جنرل (ر) عثمان نے انکوائری کی منظوری دی تھی۔

تاہم کئی سال التوا کا شکار رہنے کے بعد 2017 میں دوبارہ انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا جس کے بعد عدالت میں رپورٹ جمع کروائی گئی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے خلاف کوئی بھی دستاویزی یا زبانی شواہد نہیں ملے۔

اس کے بعد لاہور کی احتساب عدالت نے دونوں کے خلاف نیب انکوائری بند کرنے کی منظوری دی تھی۔


اپنا تبصرہ لکھیں